حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
رفقاء اور اہل تعلق نے اصرار کیا کہ حضرت والا ان صاحب کی دعوت ضرور قبول فرمالیں‘ یہ امریکہ کی ایک اہم یونیورسٹی میں کسی شعبہ کے صدر ہیں اور بہت ہی ذہین اور زیرک انسان ہیں مگر ان کی کمزوری یہ ہے کہ اہل دین خصوصاً علمائے دین کو دقیانوسی سمجھتے ہیں اور دین داروں کا اکثر مذاق اڑاتے ہیں‘ اگر حضرت والا نے ان کی دعوت قبول فرمالی تو حضرت کی صحبت مبارکہ اور توجہ سے امید ہے کہ یہاں نیویارک میں دین اور دعوت کا بہت کام کریں گے اس لیے کہ یہ عبقری صلاحیت کےا نسان ہیں۔ حکیم الاسلام حضرت قاری محمد طیب صاحب نے رفقاء کے اصرار پر ان صاحب کی دعوت قبول فرمالی‘ دوپہر کے وقت وہ صاحب حکیم الاسلام کو اپنی گاڑی میں اپنے گھر لےکر گئے اور اپنے مزاج سے مجبور ہوکر انہوں نے حضرت کے ساتھ بھی دعوت کھلانے میں ایک کھیل کھیلا جو وہ اکثر دین داروں کے ساتھ ان کو دنیا سے نابلد سمجھ کر کھیلا کرتے تھے انہوں نے حضرت کے اکرام میں ڈائننگ ٹیبل کے بجائے دسترخوان بچھایا مگر دسترخوان پر مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کی کراکری‘ چھریاں‘ کانٹے‘ پھول گلدستے‘ چمچ‘ پلیٹیں سجا کر رکھ دیں اور حضرت سے عرض کیا کہ حضرت شروع فرمائیں؟ حکیم الاسلام حضرت قاری صاحب نے فرمایا کہ مجھے بڑا عجیب لگا کہ برتن اور چھری کانٹے کراکری سب سجادی ہیں‘ کھانا ہے ہی نہیں اور میزبان کہہ رہا ہے کہ شروع کیجئے تو حضرت نےفرمایا کہ میں نے رہنمائی کیلئے اسوہ رسول اکرم ﷺ کی روشنی میں سنت کے دروازہ پر حاضری دی وہاں سے فوراً رہنمائی ہوئی اور میرے اللہ نے مشکل حل کردی میں نے ان سے عرض کیا: سنت یہ ہے کہ میزبان پہلے شروع کرے‘ یہ ایک غلط بات‘ خلاف سنت ہمارے معاشرہ میں رائج ہے کہ مہمان پہلے شروع کرے‘ سنت یہ ہے کہ میزبان پہلے شروع کرے‘ ان صاحب نے وہ کانٹے چھریاں‘ پھول اور پلٹیں توڑ کر کھانا شروع کردیں وہ سب فاسٹ فوڈزآئٹمز تھے جو انہوں نے کانٹے‘ چھریوں‘ گل دستوں اور برتنوں کی شکل میں تیار کرائے تھے ہم لوگوں نے ان کو دیکھ کر کھانا کھایا اور دعوت کا مزہ لیا اور ان صاحب کا یہ خیال غلط ثابت ہوا کہ دین دار لوگ دقیانوسی سوچ کے لوگ ہوتے ہیں اور چودہ سو سالہ دین اس نئے زمانہ کیلئے موزوں نہیں ہے۔
حضرت نے اپنے ایک بیان میں یہ واقعہ سنا کر فرمایا کہ یہ ایک سنت کہ میزبان پہلے شروع کرے‘ اس میں کتنی رحمت اور عافیت ہے۔ پوری دنیا میں لوگوں کے رہن سہن اور کھانے پینے کی چیزوں کا انداز مختلف ہے‘ کسی کھانے کو کھانے کا جو طریقہ ہے اسے اسی طرح کھا کر اس کا صحیح لطف اٹھایا جاسکتا ہے اور اُس علاقہ کے لوگوں کو اُسی طرح کھانا اچھا بھی لگتا ہے اس طریقہ کے علاوہ اگر کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی کھائے گا تو لوگوں کی نگاہ میں اس کا مذاق بنے گا‘ اگر میزبان شروع کرے گا تو مہمان کیلئے کوئی دقت نہیں ہوگی‘ حضرت نے یہ واقعہ بیان فرما کر فرمایا کہ میں نے یہ بات اس پس منظر میں کہی ہے کہ اس کائنات کےمالک حکیم و خبیر رب نے اس دین کو جس کا عملی نمونہ اللہ کے رسول ﷺ کی حیات طیبہ کو قرار دیا اور آپ کی حیات اور سنت کو اسوہ حسنہ قرار دیا‘ یہ قیامت تک کے لوگوں کیلئے موزوں ترین طرز حیات ہے بس انسان کیلئے ضروری ہے کہ اس کو سنت کا صحیح علم ہو‘ اگر وہ طریقہ سنت کو جانتا ہے تو اسے جدید سے جدید تر دور میں اور مشکل ترین مراحل زندگی میں سنت سے روشنی حاصل ہوگی اور سنت کو کامل طریقہ پر جاننے اور اس پر عمل کرنے والا کبھی بھی کسی مشکل سے مشکل مرحلہ میں پھنسے گا نہیں۔ مگر ضروری ہے کہ اسے سنت کاکامل علم ہو اور محض رواجی طور پر مشہور ان چیزوں کو وہ دین نہ سمجھے جن کا سنت سے کہیں ثبوت نہیں ملتا۔ جیسے یہ بات مشہور ہے اور مہمان کی عزت اس میں سمجھی جاتی ہے کہ مہمان پہلے شروع کرے حالانکہ سنت اس کے خلاف ہے۔ کاش ہم سنت کو اس کی اصل سے اور اہل علم محققین سے سیرت پاک کی عظمت کو سمجھیں اور زندگی کے ہر مرحلہ میں اپنے مسائل کو اس احسن ترین طریق سے حل کرنے کا مزاج بنائیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں