ایسا جادو ہم نے کبھی نہ دیکھا:اگر اس کا سر قلم کردیا جاتا تو وہ جادو نہ کھلتا کیونکہ یہ ختم ہوجاتا اس کا سر قلم نہیں کیاگیا اور وہ جادو اپنی پوری قوت کےساتھ سامنے آیا اور ایسے انداز سے سامنے آیا کہ ہمیں خودبہت زیادہ احساس ہوا‘ شہنشاہ اعظم اس میں ہمارا قصور یقیناً ہوگا‘ ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جو بات حقیقت ہے وہ یہی ہے کہ ایسا جادو اس کے پاس تھا آج تک خود ہم نے نہ سنا‘ نہ سوچا‘ نہ دیکھا۔ یہ بات کرتے ہوئے اس نے باقی دیگر جادوگر اور عاملین کی طرف نظر اٹھائی تو سب نے اثبات میں سر ہلایا کہ آقا حقیقت یہی ہےکہ ان کی بات سچی ہے کہ آج تک ایسا جادو اور ظالم انداز کا جادو ہم نے نہ کبھی سوچا ‘نہ دیکھا‘ نہ سنا‘ نہ پڑھا۔ لہٰذا اس میں ہمارا قصور نہیں پھر بھی ہم آپ سے معذرت اور معافی کے خواستگار ہیں کہ ہمیں معاف کردیں اور ہماری جان بخشی کردیں۔ ہم نے ہمیشہ آپ کی اور آپ کی نسلوں کی غلامی کی ہے اور آئندہ بھی غلامی کے طلبگار ہیں۔ ظالم جادوگر بالکل نہتا ہوچکا: جب ان کی بات ختم ہوئی تو وزیراعظم نے شہنشاہ اعظم کے کان میں کوئی بات کہی جس سے شہنشاہ اعظم کا غصہ ایک دم ٹھنڈا ہوگیا اور انہوں نے آنکھ کے شارے سے ان کو معاف کردیا اب یہ ظالم جادوگر بالکل نہتا ہوگیا تھا اب اس کے پاس کچھ نہیں تھا‘ اس سے پہلے یہ خاموش تھا اور اس نے اپنی طاقت اور جرأت دکھائی اسے اپنے آخری وار پر ناز تھامگر اب یہ جن معافی درگرز اور معذرت کی طرف لوٹ آیا۔ شہنشاہ اعظم سے بار بار معافی مانگتا تھا اور پورے مجمع سےمعافی او رحم کا طلب گار تھا لیکن مجمع اس کو معاف کرنے کے حق میں نہ تھا۔آخر اس کو معافی کیوںملتی؟:آخر مجمع اس کومعاف کیسے کرتا؟ اس نے ظلم کی اندھیری رات میں کتنے مشکل سےمشکل وار کیے‘ کتنے لوگوں کو اس نے پریشان کیا اور کتنی انسانیت کو اس نے ذلیل کیا‘ دکھی انسانیت کو پریشان سے پریشان ترکیا‘ اسے تو لوگوں میں سکھ بانٹنے تھے‘ سکون دینا تھا‘ اگرعامل تھا بھی تو اس کے عمل سے مریضوں کو صحت یابی ملنی چاہیے تھی‘ ٹوٹے ہوئے گھروں کوجوڑ اور ٹوٹے ہوئے دلوںکو سکون ملنا تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔ انتقام کی آگ اور شعلے: لوگوں کے اندر انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی اور انتقام کے شعلے ہواؤں اور فضاؤں میں بلند ہورہے تھے‘ خود شہنشاہ جنات حالت تذبذب میں تھے کہ میں کیا فیصلہ کروں‘ کیا کہوں ‘کیا اس کو میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے اور سسکا سسکا کر قتل کروں یا پھر میں ایک ہی وار میں اس کا سر تن سے جدا کردوں اور اس کو قتل کردوں‘ آخر کیسے ہو؟ اور کس طرح ہو؟ آخرکار بادشاہ نے اعلان کیا کہ تین دن کے بعد آپ میرا آخری فیصلہ سنیں گے لہٰذاتین دن انتظار کیا جائے‘ اگلے ہی پل اس ظالم جادوگر کو قید کردیا گیا اور بادشاہ اپنے تخت سے اٹھا اور پردے کے پیچھے چلا گیا۔ وہ تین دن نہیں تین صدیاں تھیں: لوگ حیران پریشان کہ اس کو تین دن مزید رعایت کیوں دی گئی اور تین دن مزید ڈھیل کیوں دی گئی‘ یہ ایسا کیوں ہوا؟ اور کس لیے ہوا؟ تین دن کیا تھے تین صدیاں تھیں لوگوں کی آپس میں چہ مگوئیاں ‘تجزیے‘ مشورے ایسے کہ اگر ایک ایک کو بیان کرنے بیٹھیں تو کتابوں کی کتابیں لکھی جاسکیں کوئی کہتا بادشاہ اس کو چھوڑ دے گا اور کسی ایسی وادی میں بھیج دے گا جہاں سے اس کی واپسی ناممکن ہو اور یہ سسک سسک کر مر جائے گا۔وادیٔ موت: کیونکہ شاہ جنات کے پاس ایسی کئی وادیاں اور ایسے کئی و اقعات پہلے سے ہوچکے تھے کہ بادشاہ جب کسی سے سخت ناراض ہوتا تھا تو اس کو ایسی وادی میں بھیج دیتا جہاں نہ کھانا‘ نہ پینا‘ نہ زندگی‘ نہ صحت‘ نہ کوئی دوست‘ نہ کوئی عزیز اور نہ کوئی جاننے والا اور یہ شخص تنہائیوں میں سسکنے کا ایسا ٹھکرایا جاتا کہ اپنی زندگی میں خود ختم ہوجاتا ‘پریشان ہوجاتا اور مارا جاتا۔ باغی کی موت:کچھ عرصہ پہلے ایک واقعہ بھی ایسا ہوا تھا کہ ایک شخص مسلسل بغاوت پر اترا ہوا تھا‘ بادشاہ نے اسے کئی بار تنبیہہ کی ‘کچھ سزائیں بھی ملیں لیکن وہ بغاوت کیے جارہا تھا اور بغاوت پر بغاوت حتیٰ کہ اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی۔ بادشاہ کے حکم کو اس نے ہمیشہ ہلکا سمجھا اور کسی کے حکم کے کوئی رعایت نہیں کی‘ یہ آخرکار اسی ویران اور بے سہارا جگہ کی سزا کا مستحق سمجھا گیا اور بادشاہ نے اسے ویران وادی میں بھیج دیا جو چاروں طرف سے فلک بوس پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے اور ان پر سخت جنات کے سخت پہرے ہیں اور کوئی شخص باہر نکل نہیں سکتا اور دراصل بادشاہ خود ایک
بہت بڑا عامل ہے۔اگر شاہ جنات عامل نہ ہو تو: شاہ جنات اگر خودعامل نہ ہوں تو ان کی نگری میں چونکہ ہر جن عامل ہوتا ہے اور ہر جن اس مزاج کو رکھتا ہے کہ وہ جادوکرتا ہی رہتا ہے اگر بادشاہ خود عامل نہ ہو تو جنات اس کو کھا جائیں اور جادو سے اس کو مار ڈالیں۔ اس کا تخت چھین لیں‘ اسے ذلیل کردیں یا اس کے بچے اس سے چھین لیں یا اس کی دولت سے اس کو محروم کردیں یا اس کے گھر والوں کی عزتوں کو تار تار کردیں۔ اس لیے ہر شاہ جنات تخت پر بیٹھنے سے پہلے اپنے بڑوں کے عمل اورچلے ضرور کرتا ہے اور اپنے بڑوں کےسینہ بہ سینہ چلتےہوئے عملیات‘ تعویذات‘ حصار اور چلے اپنا ہمسفر اور ساتھی رکھتا ہے۔ جب اس باغی کو اس وادی میں بھیج دیا گیا تو اس کا دوسرامطلب موت ہی ہے اور موت ہی اس کا آخری حل ہے اور موت ہی ہوتی ہے۔ جب وہ شخص مر جاتا ہے تو وہاں کے جنات اسی وادی میں گڑھا کھود کر اس میں دفن کردیتے ہیں کوئی جلدی مرتا ہے کوئی دیر سےمرتا ہےکوئی نرم جان ہوتا ہےکوئی سخت جان ہوتا ہے لیکن آخرموت ہی اس کا انجام ہوتا ہے۔بادشاہ اس جادوگر کو بچالے گا:کچھ لوگوں کی رائے تھی کہ اسے اس وادی میں بھیج دیا جائے گا کچھ کی رائے تھی نہیں وادی میں نہیں بھیجا جائے گا بادشاہ ایسے شخص کی حفاظت کرے گا اور کسی نہ کسی طرح اسے بچا لے گا پھر اپنی حکومت اور بادشاہت کو مضبوط کرنے کیلئے اس کے جادو سے فائدہ اٹھائے گا۔ کچھ کی رائے یہ تھی کہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے گا اور اس کے جسم کو چیل کوؤں کو ڈال دیا جائے گا اور کچھ کی رائے تھی نہیں ایک ہی وار سے اس کا سر قلم کردیا جائے گا‘ نہیں ایسا نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کو زندہ جلا دیا جائے اس کی راکھ ہڈیاں جو کہ چورا چورا ہوکر ختم ہوچکی ہوں ان کو ہواؤں میں اڑا دیا جائے گا۔ تھا جس کا انتظار وہ دن آہی گیا: تین دن تک مستقل مختلف رائے رہیں اور تین دن تک آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ چہ مگوئیاں ہوتی رہیں۔ آخر وہ تیسرا دن بھی آگیا جس کا بہت شدت سے انتظار تھا‘ وہ دن ہی کیا تھا اب تو مجمع کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا اور ایسا بڑا سمندر جس سمندر کو کوئی سنبھال ہی نہیں سکتا ‘ہر طرف انسانوں اور جنات کا ہجوم تھا‘ اب ہر شخص منتظر تھا کہ نامعلوم کیا فیصلہ ہوتا ہے اور شہنشاہ کیا فیصلہ کرتے ہیں؟ متلاشی نگاہیں تھیں‘ لبوں پر سوال تھے اور ہرفرد منتظر تھا‘ صبح ہوئی لوگ صبح سے پہلے آکر یہاں بیٹھ گئے اور انتظار میں کہ یقیناً کچھ فیصلہ ہوگا تو صحیح‘ بادشاہ کا تخت سجا‘ محفل سجی‘ بادشاہ کے وزیر آئے‘ قطار در قطار بیٹھے‘ پھر مشیر آئے پھر ان کے پیچھے قطار در قطار بیٹھے‘ پھر معاونین آئے‘
پھر چوبدار آئے پھر بادشاہ کے خدام آئے‘ آخر میں بادشاہ خود آئے۔ تخت پربراجمان ہوئے اور پوری محفل سے سوال کیا۔ خدارا اس کو چھوڑا نہ جائے:آپ نے تین دن کیا سوچا؟ کہ اس کے بارے میں کیا فیصلہ کیا جائے؟ ہرطرف سے طوفان شور اٹھا کہ اس کو فوراً ختم کردیا جائے کوئی کہتا تھا اس کو جلا دیا جائے کسی کی پکار تھی کہ اس کے ٹکڑے کردئیے جائیں‘ کوئی زاریاں کرکے کہہ رہا تھا کہ اس کو کبھی چھوڑا نہ جائے‘ چاہے آپ کچھ کردیں کیونکہ اگر اس کو رعایت دی گئی تو یہ آنے والی مزید انسانیت اور جنات کی دنیا کو دکھ اور تکالیف دے گا اور پریشانیاں دے گا اور ایسا پریشان کرے گا کہ شاید پھر اس سے پہلے کبھی کسی نے پریشان نہ کیا ہو۔ یہ ان کی پکار تھی یہ ان کی آواز تھی ہر طرف اسی چیز کا شور تھا بادشاہ سب کی سنتا رہا۔میرا فیصلہ بھی سن لو!: آخرکار بولا: ہم نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ جتنے خاندانوں کو اب تک اس نے ستایا ہے وہ سب ایک طرف ہوجائیں وہ سب ایک طرف ہوئے‘ بہت بڑا مجمع تھا‘ پھر بادشاہ نے سب کے ہاتھوں میں تیر کمان دئیے اور کہا کہ ہر شخص اس کو تیر مارے‘ وہ تیر چاہے جہاں لگے اور اگر کسی کا تیر نشانے پر نہ لگے تو اس کو پھر سے تیر مارنے کی اجازت ہے‘ پھر تیر مارنے کے بعد اگلا ہمارا حکم یہ ہوگا کہ اگر پھر بھی یہ زندہ رہا تو جلاد اس کا سر قلم کریں اور سب کے سامنے اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرے اور پھر جن لوگوں کو اس نے ستایا ہے وہ سب اس کی لاش پر لکڑیاں پھینکیں یا گھی پھینکیں تاکہ اس کو جلانے میں ان کا حصہ ہو اور ان کو دل کی ٹھنڈک پہنچے اور اس کے بعد اس کی راکھ ان خاندانوں کو بانٹ دی جائے جن خاندانوں کو اس نے ستایا تھا‘ وہ اس کو خود اپنے ہاتھوں سے ہوا میں اڑائیں۔( بظاہر یہ طریقہ کار ہندوانہ ہے چونکہ وہ ظالم جادو گر مسلمان نہیںتھا اوراسکی لاش کو اسکے بعد بھی اس کے وارثوں نے جلانا ہی تھا اور پھر مجمع میں موجود مسلم‘کافر سب موجود تھے‘ خاص طورپر کافروں کی چاہت تھی کہ اس کو ٹکڑے کیا جائے اور جلایا جائے) ظالم جادوگر کا انجام قریب آگیا:یہ فیصلہ سنتے ہی ہرطرف واہ واہ کے نعرے اور زندہ باد کے نعرے لگے اور بادشاہ کا نام لے کر اس کو ہوائی بوسےدینے لگے ‘ اسی دوران بادشاہ کی فوجیں آگے بڑھیں اور انہوں نے ہر خاندان کے ہاتھ میں تیر کمان دئیے‘ ظالم جادوگر نے جب یہ فیصلہ سنا تو اس کی معافی ‘ رحم اور درگزر کی آوازیں ابھرنے لگ گئیں اور وہ مسلسل کہہ رہا تھا کہ معاف کیاجائے‘ رحم کیا جائے‘ درگزر کیا جائے لیکن! معافی رحم اور درگزر دراصل اس کیلئے تھا ہی نہیں‘ کیونکہ اس نے آج تک کسی پر رحم اور درگزر نہیں کیا تھا اور یہی فیصلہ اس کیلئے تھا اور اسی فیصلے کو آخرکار صادر ہونا تھا‘ لوہے کے بڑے جنگلے میں اس کو قید کردیا گیا تاکہ تیر اس میں سے گزریں اور اس کے جسم کو لگیں اس کی چیخیں تھیں اس کی آوازیں تھیں اور اس کا شور تھا حیرت کی بات یہ ہے کہ جتنی اس کی چیخیں آوازیں اور شور تھا اتنا ہر طرف سے واہ واہ کی آوازیں تھیں اور انتقام کے الفاظ تھے۔ پہلا تیر چلا اور۔۔: آخرکار پہلا تیر چلا اور اس کے کندھے پر پیوست ہوگیا‘ دوسرا تیر اس کے سینے میں ‘اس طرح تیروں پر تیر چلے لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ جنگلے سے نکلنے کی کوشش کرتا رہا تیروں کی بارش اس کے جسم پر ہوتی رہی جس کا تیر چوک جاتا اس کو دوسری مرتبہ پھر تیر مارنے کا موقع دیا جاتا ‘سینکڑوں تیر اس کے جسم پر پیوست ہوگئے اور جادوگر جن گر گیا‘ ابھی اس کے جسم میں سانس تھی‘ ہرطرف خون ہی خون تھا‘ یہ خون دراصل لوگوں کا خون تھا جو اس نے پیا تھا‘ یہ لوگوں کے قطرے تھے جو اس نے دوسروں کے جسم سے چنے تھے‘ اصل تو اس کا صلہ تیر نہیں تھا لیکن اب اس کے علاوہ کوئی حل ہی نہیں تھا۔آخر کار جادوگر جن مرگیا: بادشاہ کا یہ فیصلہ سب کو اچھا لگا‘ جب سب نےتیر مار لیے تو دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ جلاد آگے بڑھے اسے لوہے کے جنگلے سےنکالا اس کے جسم کےٹکڑےٹکڑے کیے اُن کے اوپر نیچے لکڑیاں رکھ کر انہیں آگ لگادی‘لکڑیاں خشک تھیں‘ ہر خاندان جس کو اس نے درد اور دکھ دئیے اس کے ہاتھ میں لکڑی ہوتی ‘ وہ لکڑی اس کے جسم کے ٹکڑوں پر ڈالتے‘ شعلے مزید بلند ہوتے یوں اس کے جسم کے مزید ٹکڑے ہوتے گئے اور جلتے گئے حتیٰ کہ اس کا سارا جسم جب جل گیا اس کی راکھ کو پھیلا گیا کہ وہ ٹھنڈی ہوجائے اور اس کی راکھ کو مٹی کے کوزوں میں ڈال کر سب خاندان والوں کو تقسیم کردیا گیا (یہ طریقہ خاص طور پر ہندوانہ طریقہ ہے اور ہندو ہی اس طریقہ کے مطابق اپنے مردوں کوجلاتے اور راکھ بہاتے ہیں‘ مسلمانوں کا یہ طریقہ ہرگز نہیں ہے اور نہ مسلمان ایسا کریں)اور یوں انصاف دینے والے بادشاہ کا انصاف مکمل ہوا اور لوگ خوشی خوشی اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے اور انسانوں اور جنات کی تاریخ میں ایک بات سامنے آئی کہ ظلم کا انجام آخر ظلم ہوتا ہے اور ظلم کا انجام بہت بُرا ہوتا ہے۔ ظالم اصل میں یہ سمجھتا ہے کہ مجھے کوئی نہیں پکڑ سکے گا لیکن رب کی لاٹھی بہت شدید ہے۔شریر جنات سے بچنے کا ٹوٹکہ: قارئین! میں یہ واقعہ سن رہا تھا جس میں درد بھی ہے‘ سوز بھی ہے‘ دہلنا بھی ہے‘ دکھ بھی ہے اور عبرت بھی ہے۔ دراصل میں جنات سے ان کے حالات بہت سنتا ہوں اور میں جنات سے ان کے تجربات بہت لیتا ہوں کیونکہ جنات ایسی ہوائی مخلوق ہیں جن کاقیام
ایک جگہ نہیں ہوتا وہ جگہ جگہ جاتے ہیں اور جگہ جگہ ان کو مختلف لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے یہ لوگ شریر بھی ہوتے ہیں شریف بھی ہوتے ہیں شیطان بھی ہوتےہیں‘ شریف بھی ہوتے ہیں لیکن اکثریت ان میں شریر اور شیطان ہوتی ہے۔ ان سے بچنے کیلئے ایک ٹوٹکہ جو کہ خود جنات نے مجھے بتایا کہ آپ جو ہڈیاں گوشت کی یعنی مرغی ہو یا جو بھی جانور استعمال کریں ان ہڈیوں کو پھینکیں نہیں بلکہ صاف ستھری جگہ پر رکھ دیں بظاہر وہ بلیاں اور کتے کھاجائیں گے لیکن دراصل وہ ان کی غذا ہے‘ جو یہ کرتا ہے جنات کے حملوں سے بچا رہتا ہے‘ جادو سے محفوظ رہتا ہے اور جنات کے شر سے بہت زیادہ اس کی حفاظت ہوتی ہے کیونکہ یہ ہڈیاں دراصل اس جن کی غذا ہے اور جن اس غذا کو کھا کر اس شخص کیلئے دعا کرتا ہے جس نے اس کی غذا کو صاف ستھرا رکھا اور حفاظت کی‘ یہ عمل جس کو بھی بتایا اس نے اس عمل کو بہت زیادہ کیا اور جس نے بھی کیا اس کو بہت فائدہ ہوا اور یقینی فائدہ ہواکیونکہ جنات جن چیزوں کو پسند کرتے ہیں اگر ان چیزوں کو انہیں دیا جائے تو وہ خوش ہوتے ہیں‘ انہیں راحت اور فرحت محسوس ہوتی ہے اور انہیں اطمینان ہوتا ہے اور پھر اس شخص کے بارے میں احسان مندی کا جذبہ ان کے دلوں میں ہوتا ہے اور وہ اس کو تکلیف نہیں دیتے‘ نقصان نہیں پہنچاتے اور اس کیلئے خیر کا معاملہ کرتے ہیں۔ گوشت تو ویسے بھی ہم کھاتے ہیں اگر اس کی ہڈیاں پھینکیں نہیں اور گٹر اور نالی میں نہ بہائیں بلکہ اکٹھا رکھیں‘ گھر کے کسی کونے میں یا گلی اور جگہ پر لیکن صاف ستھری جگہ اگر ان ہڈیوں کو وہاں رکھ دیا جائے تو اس کے بہت اچھے رزلٹ اور نتائج ملنا شروع ہوجاتے ہیں۔ (جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں