شور کے اندر سونے والوں کے عضلات سکڑ جاتے ہیں اور نصف گھنٹے تک سکڑتے رہتے ہیں غالبا ً شہروں کے رہنے والوں کی تھکن کی ایک وجہ یہی ہے کہ وہ دن رات شور سنتے ہیں آج کل مکانات ایسے نہیں بنتے کہ وہ بیرونی شور کو روک سکیں۔
شور نہ صرف یہ کہ انتہائی تکلیف دہ چیز ہے بلکہ یہ نازک کاموں مثلا ً ہسپتال کے آپریشن اور سائنسی تحقیق وغیرہ کے لئے سخت نقصان دہ ہے سرجن اور تحقیق کار کی توجہ کو منتشر کرتا ہے ۔انسانی ذہن ایک وقت میں صرف ایک خیال پر اپنی توجہ مرکوز کر سکتا ہے اگر اس وقت شور کی مداخلت ہو جائے تو توجہ بٹ جاتی ہے اور تنائو یا خوف پیدا ہونے اور غلطی کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔شور کا مطلب یہ ہے کہ ہماری طبل گوش( کان کا پردہ) پر مسلسل ناگوار آوازوں کی بمباری ہوتی ہے مثال کے طور پر لاریوں اور ٹرکوں کا شور ٹیکسیوں اور رکشائوں کا شور ہوائی جہازوں کا شور اونچی آواز میں بجائے جانے والے میوزک کا شور ہمارے ذہن کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے ۔شور اب سماجی مسئلہ بن گیا ہے اس کا علاج ویسے ہی کرنا پڑے گا جیسے ہم پانی اور ہوا کی آلودگی کا کر رہے ہیں ۔ہمارے کان کا نازک پردہ طبعی طور پر کم شور کو برداشت کر سکتا ہے گاڑیوں کی آوازیں بعض مشینوں کی گڑ گڑاہٹ ہوائی جہاز کی آواز گاڑیوں کے ہارن سائرن یہ شور انتہائی سنگین صورتیں ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی کان کی نزاکت ان کی متحمل نہیں کان کے بعد شور فورا ً دماغی نظام کو متاثر کرتا ہے بعض طبی ماہرین نے تو اسے امراض قلب ‘ہائی بلڈ پریشر ‘معدے کے السر یہاں تک جنسی قوت کے لئے سخت نقصان دہ قرار دیا ہے ۔
شور کو ہم غیر ضروری آواز بھی کہہ سکتے ہیں زیادہ شور بہرہ پن پیدا کر سکتا ہے اور متاثرہ شخص کو پتا بھی نہیں چلتا کہ وہ بہرہ ہو رہا ہے ۔کان کی نزاکت:انسان کے کان کا نظام نہایت نازک ہے یہ ہلکی آوازوں میں تمیز کر سکتا ہے لیکن جب ہوائی جہاز کی آواز آتی ہے جو ہلکی آواز سے لاکھوں درجے زیادہ ہوتی ہے تو کان میں درد پیدا ہوتا ہے اور جب ایسی آواز مستقل سننی پڑے تو کان کا نازک نظام کام نہیں کر سکتا اور بہرہ پن پیدا ہو جاتا ہے برطانیہ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ چار ملین افراد اس سے جزوی یا کلی طور پر بہرے ہوتے ہیں کارکنوں میں بہرے پن کا تناسب یہ ہے کہ تقریبا ً ہر تیسرا بہرہ شور کی وجہ سے سماعت سے محروم ہوا ہے ۔انسانی کان 90 ڈیسی بل کی آواز برداشت کر سکتا ہے اس سے شور زیادہ ہو تو کان میں روئی کی پھریری رکھنی چاہیے‘زیادہ اونچی آواز کا میوزک بھی 135 ڈیسی بل ہوتا ہے اور کانوں کے لئے سخت نقصان دہ ہوتا ہے ٹیلی ویژن ‘ریڈیو یہاں تک کہ کمپیوٹرکی بورڈ کی آواز بھی ناقابل برداشت ہو جاتی ہے اس شور میں کوئی شخص اپنی توجہ مرکوز نہیں کر سکتا اور نہ وہ آرام ہی کر سکتا ہے ۔
تخلیقی خیال:شور تخلیقی خیال کا قاتل ہے صرف موبائل فون کی گھنٹی بھی تخلیقی خیال کے سلسلے کو توڑ سکتی ہے جدید دور میں ایجادات پر توجہ مرکوز کرنا تخلیقی تحریر لکھنا ‘پینٹنگ کرنا ‘شور کی وجہ سے مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں ۔اعصاب کے لئے خاموشی کی ضرورت ہے‘ خاموشی اعصاب پر مرہم کا کام کرتی ہے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ ایک ایسی طبعی ضرورت ہے جسے افریقہ کے قبائل بھی جانتے ہیں‘ سوڈان کا ایک قبیلہ ماہان ڈھول تک نہیں بجاتا اور اپنے جنگل میں مکمل خاموشی کو قائم رکھتا ہے ۔یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایئرپورٹ کے کنٹرول ٹاور کے اہلکار ہوائی جہازوں کے اترنے چڑھنے کے شور سے متاثر ہو کر بعض اوقات ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں کہ ہوائی جہازوں کے حادثے ہو جاتے ہیں مسلسل شور سے اہلکار تھک جاتے ہیں چڑ چڑے ہو جاتے ہیں اور دماغ صحیح کام نہیں کر سکتا ۔شور کے دیگر نقصان:شور میں آپ رات بھر سو نہیں سکتے‘ شور میں کام کرنے والے فرد کے عضلات اکڑ جاتے ہیں‘ عمل جذب و ہضم بڑھ جاتا ہے اور آکسیجن زیادہ خرچ ہوتی ہے اس سے وہ روزانہ تھک کر چور ہو جاتا ہے تجربات سے ثابت ہوا کہ خاموش ماحول کے مقابلے میں پر شور ماحول میں 19 فیصد زیادہ توانائی صرف ہوتی ہے ۔ایک تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ شور کو 40 فیصد کم کیا گیا تو کمپیوٹرٹائپنگ میں ایک تہائی اغلاط کم ہوئیں ۔نیند پر اثرات:شور کے اندر سونے والوں کے عضلات سکڑ جاتے ہیں اور نصف گھنٹے تک سکڑتے رہتے ہیں غالبا ً شہروں کے رہنے والوں کی تھکن کی ایک وجہ یہی ہے کہ وہ دن رات شور سنتے ہیں آج کل مکانات ایسے نہیں بنتے کہ وہ بیرونی شور کو روک سکیں اوپر کی منزل کی آواز نچلی منزل والے سن سکتے ہیں ۔آرام اور خاموشی ہر انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں لیکن شہروں میں ٹریفک‘موبائل فون‘ ایل ای ڈیز(ٹیلی ویژن) میوزک تقریبات‘ ریڑھی بان(جومحلوں میں اشیاء بیچنے کیلئے سپیکرز کا استعمال کرتے ہیں) وغیرہ نے سب کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے بعض پیشے تو شور پیدا کرنے سے پیسہ کماتے ہیں اب روزگار چھوڑ کر جنگل میں جا رہنا تو ممکن نہیں۔
دیو جانس کے نزدیک آرام کی اہمیت:سکندر اعظم کے زمانے میں دیو جانس فلسفی موجود تھا جب سکندر کا لشکر دیو جانس کے شہر پہنچا تو لوگ شہر سے بھاگ گئے صرف دیو جانس رہ گیا سکندر کو حیرت ہوئی کہ اتنا دلیر آدمی ہے کہ لشکر کے ڈر سے نہیں بھاگا وہ اس کے پاس گیا اور کہا مجھے تمہاری دلیری پسند آئی ہے میں چاہتا ہوں کہ تمہاری مدد کروں تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے ؟۔دیو جانس نے کہا اس وقت مجھے دھوپ کی ضرورت ہے تم سامنے سے ہٹ جائو کہ دھوپ مجھ تک آئے ‘سکندر کو سخت غصہ آیا ۔تم جانتے نہیں کہ میں کون ہوں؟ میں نے پورے یونان کو مسخر کیا ہے ؟۔دیو جانس بولا اس کے بعد کیا کرو گے ؟۔سکندر نے کہا میں اٹلی اور روم کو فتح کروں گا۔ دیو جانس نے پوچھا اس کے بعد ؟۔سکندر نے جواب دیا ایران اور ہندوستان کو فتح کروں گا ۔دیو جانس نے پوچھا پھر۔سکندر نے کہا پھر میں وطن لوٹ کر اپنے باغ میں آرام کروں گا ۔دیو جانس بولا یہی تو میں کر رہا ہوں دھوپ تاپ رہا ہوں اور آرام کر رہا ہوں ۔افسوس کہ 33 برس کی عمر میں سکندر اعظم دُنیا سے رخصت ہوگیا اور وہ اپنے گھر کی خاموشی میں آرام سے لطف اندوز نہ ہو سکا خاموشی اور آرام یہ دونوں جسم اور روح کی غذا ہیں اس وقت قلب پر روشنی اترتی ہے اس وقت ہی قوت خیال پرواز کرتی ہے آرام شور میں نہیں ہو سکتا معاشرے اور حکومت دونوں سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ شور پر پابندی لگائے تاکہ سب لوگ کم از کم رات تو آرام سے گزار سکیں ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں