موت کا وقت ،مقام اورطریقہ متعین ہے:
مجھے ایک صاحب نے بتایا ایک بارات رات کو دیر سے پہنچی ،دولہا کا نکاح ہوا۔ صبح کے وقت رخصتی تھی۔رات کوکافی دیر سے سوئے۔چارپائیاںبھی کم تھیں۔ایک چارپائی پر دو آدمی سوئے تب جا کرچارپائیاں پوری ہوئیں۔ میں دولہے کے ساتھ والی چارپائی پر سویا۔دولہے کے ساتھ ایک اور آدمی بھی سویا ہوا تھا۔سارے دن کے سفر کی وجہ سے سب تھکے ہوئے تھے اس لیے بس سر رکھتے ہی سب کو نیند آگئی ،لیکن پتہ نہیںکیوںمجھے نیند نہیں آرہی تھی!عجیب بے چینی سی ہورہی تھی ۔اسی دوران میں نے دیکھاکہ دولہے کا ہاتھ جوکہ چارپائی سے باہر لٹکا ہواتھامگر زمین سے فاصلہ پر بلندی میں تھا۔میں نے دیکھا کہ ایک بڑا سا بچھو آیا اور وہ اچھل اچھل کر اس کے ہاتھ کو ڈسنا چاہتاہے ،لیکن ہاتھ بلندی پر تھا تووہ ڈس نہیں پارہا تھا۔بڑی چھلانگ لگائی لیکن پھر بھی ڈس نہ سکا! پھر اس سے بھی بڑی چھلانگ لگائی لیکن پھر کامیاب نہ ہوا! اس جدو جہد کے بعد وہ پھر غائب ہوگیا۔میں حیران ہوا یہ کیا ماجراہے؟ میری نیند غائب ہوگئی اورغنودگی جو تھی وہ ختم ہوگئی اور میں چاق چوبند ہوگیا۔
تھو ڑی ہی دیر گزری وہ بچھو ایک بڑے سے گول اوپلے کو گھسیٹتا ہوا لایا۔بچھو نے اوپلے کودولہے کے ہاتھ کے نیچے رکھا ،پھر اس اوپلے پر چڑھ کر ہاتھ پر چھلانگ لگائی، اب بچھو کی رسائی دولہے کے ہاتھ تک ہوگئی توبچھو نے ڈس بھی لیا ۔ اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی، صبح ہوئی تو کہرام مچا ہوا تھا کہ دولہا میاں تو مردہ پڑے ہوئے ہیں ۔کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟یہ دولہے کو کس نے مارا؟طبعی موت مرا ہوا ہے ؟کو ئی زخم تو نہیں ہے؟ کوئی خنجر بھی نہیں ہے؟یہ سب کیسے ہوا ؟غرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں۔ میں نے باراتیوں سے کہا کہ میں بتاتاہوں کہ ہوا کیاہے؟یہ جواوپلہ پڑا ہوا ہے اسے بچھووہاںسے گھسیٹ کے لایاہے ،باقاعدہ اس کی لکیردکھائی اور اسے بچھونے ڈسا ہے۔ اس بچھو کی توڈیوٹی لگی تھی بچھو نے تواپنی ڈیوٹی پوری کی ہے۔کوئی بھی کام بس ایسے ہی ہوجاتا ہے ۔بس اچانک کوئی ایساکام ہوگیا۔اچانک کیوں ہو؟ہر چیز کے پیچھے ایک امر ہوتاہے ’’لِکُلِّ شَیْئٍ اَجَلْ ‘‘ہر چیز کا وقت مقرر ہے ،ہر چیز کے پیچھے ایک امر ہے ۔ ’’وَاللّٰہُ غَالِبٌعَلٰی اَمْرِہٖ‘‘ اورمیرے اللہ جل شانہٗ کا امر ساری کائنات پر غالب ہے ۔ عالم کے جتنے بھی احوال ہیں،مہنگائی کا جوپورا طوفان آیا ہوا ہے ، بہت کم ہی عرصے میںمہنگائی کے اس طوفان نے پوری دنیا کوایک دم سے گھیر لیا ہے اور یہ مہنگائی کا طوفان صرف پاکستان میں نہیں آیا بلکہ ساری دنیا میں آیا ہے! یہ مہنگائی نہیںاللہ پاک نے ہم پر قحط ڈال دیا ہے۔
عہد فاروقی رضی اللہ عنہٗ کا قحط اور سخاوت فاروقی رضی اللہ عنہٗ
حضرت عمررضی اللہ عنہٗ کے دور میں جب قحط آیا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے دستر خوان پرروزانہ دس اونٹ ذبح کرکے پکائے جاتے تھے اور غریب غرباء ، مسکین روزانہ آکر پیٹ بھر کرکھاتے تھے ،اورحضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ کاحال یہ تھا کہ جوکی روٹی سرکے سے کھاتے تھے۔ جو کی روٹی بہت موٹی ہوتی ہے۔اگرچہ آپ امیر المومنین تھے ،مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے اپنی جان کیلئے اچھا کپڑا ،اچھا لباس ،اچھا مکان ،اچھا کھاناترک کردیاتھا کیونکہ اس وقت امت پر سخت وقت آن پڑاتھا۔
نبی کریم ﷺ کی بشارت:
یہ وہی دور تھا جب ایک مائی نے بکری کو ذبح کیا اور بکری کے اندرسے خون کے چند ہی قطرے نکلے ،تو اس مائی نے بے ساختہ کہا :’’واہ محمد ﷺ واہ محمد ﷺ ‘‘آپ کے بابرکت دور میں کتنی برکات تھیں۔پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کو خواب کے ذریعے بشارت دی گئی ۔سرورکونین ﷺ نے خواب میں عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ سے فرمایا کہ: میں توتجھے سمجھ دار سمجھتاتھا!کیا آپ لوگ ظاہر اسباب دیکھتے ہیں؟کہ غلے کے غلے آرہے ہیں ،اونٹوں کی قطاریں آرہی ہیںاور اونٹ ذبح ہورہے ہیں ۔ یہ خواب دیکھ کرحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بلوایا،مجلس شوریٰ کا اجلاس ہوا۔اب سارے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سرجوڑ کر بیٹھ گئے کہ آقا ﷺ نے خواب میںکس طرف اشارہ فرمایا! حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ تو بہت پریشان تھے ۔آخر کار یہ بات سامنے آئی کہ ہماری نظر اللہ پاک کی مسبب ذات سے تھوڑی ہٹ گئی ہے ۔
سرورکونین ﷺ کے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی کیا شان ہے!جس دور میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہٗ زندہ تھے اس دور میں کتنے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین زندہ ہونگے ؟ابھی تو صرف دوسری خلافت کا دور تھا! اس دور میں کتنے ہی کباراور جید صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین موجو دتھے !اور ان کی عبادات، ان کا تقویٰ ،ان کا نماز روزہ میں دھیان ،ان کا اللہ جل شانہٗ کی ذات سے تعلق اور ان کی اللہ جل شانہٗ کے ساتھ محبت کیسی عجیب اور کتنی زیادہ ہوگی؟لیکن بس ذرا سی نظر ہٹی ‘نتیجتاًاللہ پاک کی نظرکرم بھی ہٹ گئی! جانور مرنا شروع ہوگئے !درخت خشک ہوگئے !نوع انسانی فاقہ کشی کا شکار ہوگئی! اوریہ سب ہوا بھی عہد فاروقیؓ میں ۔
انفرادی و اجتماعی توبہ کی ضرورت اور اس کی برکات:
غور فرمالو اللہ والو!سارے عالم میں جو بھی احوال آئیں گے وہ سب ہماری وجہ سے آئیں گے!بلکہ ہماری وجہ سے آرہے ہیں اور ہماری وجہ سے ہی ٹلیں گے ۔ زلزلہ آئے گا تو وہ زلزلہ ہماری وجہ سے آئے گا!قحط آئے گا تو وہ قحط ہماری وجہ سے آئے گا! سیلاب آئے گا تو ہماری وجہ سے آئے گا۔(جار ی ہے)
مریض کوکڑوی گولی اس لیے دی جاتی ہے کہ اس کو احساس رہے کہ اب مجھے احتیاط کرنی ہے ایسا نہ ہو کہ کہی ںمجھے کوئی بڑی بیماری لگ جائے ۔اس طرح کڑوی گولیوں سے آرام نہ آئے توپھر انجکشن کی ضرورت پڑتی ہے ،اورجب انجکشن سے بھی کام نہ بنے تو پھر سرجری کرنا پڑتی ہے ۔ احوال عالم میں حوادث در حوادث ، نقصانات در نقصانات ،فاقے ،غربت ،تنگ دستی روز بروز کیوں بڑھتی جارہی ہے۔۔۔؟ اس کے پیچھے وجہ کیا ہے۔۔۔ ؟ اس کی وجہ ہر فرد ہے ،ہر شخص یہی سمجھے کہ میری وجہ سے ایساہوتا ہے، میں نے گناہ کیا مگرتوبہ نہیں کی ،میں نے اللہ جل شانہٗ کو ٹھیک سے راضی نہیں کیا ، میری توبہ نہ کرنے کی وجہ سے یہ نقصان ہوا،میں نے احکاما ت ربانی کو نہ مانا ،عمرہ کیا ،حج کیا ،زم زم پیا ،کعبہ دیکھا ،مدینہ منورہ دیکھا ،کربلاء معلی،مصلّی کی زیارت کی مگر’’بتان عشق پھر بھی فرونہ ہوا۔۔۔! بقول شاعر:
؎ کعبہ گیا مدینہ گیا اور کربلا گیا
جیسے ہی گیا تھا ویسے ہی چل پھر کر آگیا
؎ کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
؎ عمر ساری تو کئی عشقِ بتاں میں مومن
آخر وقت میں کیا خاک مسلمان ہوگے
یہ سب یقینا ہماری وجہ سے ہوتاہے ۔کہیں سیلاب آیاتوکسی شخص نے اللہ والے سے عرض کیا کہ حضرت سیلاب آیاہے ۔اللہ والے نے فرمایا کہ وہاں جا کریہ دیکھو کہ وہاں کے مکینوں نے تو بہ کی ہے ۔۔۔؟سیلاب سے متاثرہ لوگوں نے توبہ کی ہے۔۔۔؟اور جو لوگ سیلاب سے محفوظ رہے کیا انہوں نے سیلاب متاثرین کے احوال اور ان کے ساتھ پیش آنے والے حوادث سن کر توبہ کی ہے ۔۔۔؟
عالم میں جونقصان ہونے والا ہے وہ میری اور آپکی تو بہ سے رک سکتاہے ۔اور اس کی برکات سے گندم کا دانہ کھجور کی گٹھلی کے برابربھی ہوسکتاہے ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین کے دور میں جواللہ جل شانہٗ کی طرف سے برکتوں کی بہاریں آتی تھیں اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین نے پچھلی زندگی جو شرک،بدعت اورظلم وستم میں گزاری تھی ۔پھر جب توبہ کرکے سچے رستے کی طرف لوٹے تو پھر اللہ جل شانہٗ نے ان پر اپنی برکتوں کے خزانے لٹا دیئے ۔پھر ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں آوازیں دی جاتی تھیں مگر کوئی زکوۃ لینے والا نہ تھا، سارے کے سارے زکوۃ دینے والے تھے ،اوریہ سب اس وقت ہوا اللہ والو۔۔۔! جب ان کی سوچوں کا محور بناکہ سارے عالم میں فساد میری وجہ سے ہے ،اگر میں درست ہوگیا اور میں نے اپنا جذبہ، اپنی سوچ ، اپنے اندر کی فکر ، اپنے اندر کا غم اور اپنے اندر کی تڑپ ٹھیک کرلی تو سارا عالم ٹھیک ہوجائے گا۔۔۔! ساری عدالتیں خالی ہوجائیں گی۔۔۔!جب سارے ہی معاف کرنے والے ہوں گے۔۔۔! سارے ہی درگزر کرنے والے ہوں گے ۔۔۔!جب ہر کوئی یہ جان لے گا کہ مجھ پر حقوق العباد کی ادائیگی لازم ہے ۔۔۔!اس صورت میں ہی موت کی آسانی ،قبر کی راحت اور آخرت کی کامیابی ممکن ہے ۔
سارے عالم میں جوفساد آیا۔۔۔! سارے عالم میں جوعذاب آیا۔۔۔! وہ اس وجہ سے آیا کہ ہر شخص نے خود کو چھوڑ کردوسرے کوطنزیہ نظر سے دیکھا اورعمومی طور پرآج کل اعتراض کا مزاج سا بن گیاہے ۔کہ سیاستدانوں نے ہمیںتباہ کردیا، فلاں وڈیرے نے بند اُدھر سے توڑنا تھا ادھر سے تڑوادیا ،فلاں نے اس طرح کر کے اپنی فصلیں بچا لیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ زمین کی پلیٹوں کے اندر مسلسل ایک نظام چلتاہے اوراس نظام کے تحت جو پلیٹیں زمین کی ہلتی ہیں اسی کو ارتھ کوئیک یعنی زلزلہ کہتے ہیں ،یہ تو ایک فطری نظام ہے ۔عذاب آنے کے بعد بھی اگر نظر اللہ کی طرف نہیں اٹھی تو سمجھ لو کہ دوسرا عذاب تیار ہے ۔
اس کی چھوٹی سی مثال پیش ہے کسی بچے کو استاد نے سزادی اور سزا دینے کے بعدبھی اگر بچے نے استاد سے معذرت نہیں کی اور استاد کے پاؤں نہیں پڑا ،تو سمجھ لو کہ استاد اس کو دوسری سزا اس سے بھی بڑھ کر دے گا ۔یاکوئی باپ اپنے بچے سے ناراض ہو اور بچہ اگر باپ سے معذرت نہیں کرتا اور اپنی سابقہ کارگزاریوں اور شب وروز پر لگا رہا تو سمجھ لو کہ باپ اس کو اس دفعہ کوئی بڑی سزا دے گا ۔اگر چھوٹی سرجری سے آپ کاپھوڑا ٹھیک نہیں ہوا اور اس کے اندر کی گندگی نہیں گئی تو پھر ڈاکٹراس پھوڑے کی بڑی سرجری کرے گا ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں