شب کی سیاہی تیزی سے پھیل رہی تھی، شہر کی بارونق اور مصروف ترین کاروباری سڑک پر ہجوم بڑھتا جارہا تھا۔ بڑے بڑے ہوٹلوں، ریستورانوں اور فاسٹ فوڈ اسٹورز کے بورڈ جگمگا اٹھے تھے۔ آتی جاتی گاڑیوں نے پورے منظر میں گہما گہمی کا نیا تاثر بھر دیا تھا۔ ہنستے کھیلتے بچے اپنے والدین کے ساتھ آرہے تھے۔ کچھ کے ہاتھوں میں غبارے، تو کچھ کے ہاتھوں میں شاپنگ بیگ تھے۔ ادھر کھانا کھانے کے لئے آنے والوں کے ذوق تسکین کی خاطر گویا ڈھیروں مسرتیں انتظار کررہی تھیں۔ کوئی برگر کھا رہا تھا تو کوئی چائینز۔ کسی کے سامنے نہاری کی پلیٹ رکھی تھی تو کوئی بروسٹ کے مزے اڑا رہا تھا۔ میں نے اس پورے نظارے کو غور سے دیکھا۔ مجھے کہیں بھی کسی چہرے پر کسی سوچ کی پرچھائیں دکھائی نہیں دی۔ بچے، بوڑھے اور جو ان یکساں تندہی سے کھانے میں مصروف تھے۔ کوئی نہیں تھا جو میری طرح اس صورت حال کو مستقبل کےتناظر میں دیکھ رہا ہو۔
آپ بھی سوچ رہی ہوں گی کہ آخر اس لمبی تمہید کا کیا مقصد ہے۔ لوگ اگر ہوٹلوں میں کھانا کھا رہے ہیں تو انہیں اس کا حق ہے۔ زندگی کی مصروفیت میں اگر چند خاندان، دوست یا احباب فرصت کے کچھ لمحے بسر کررہے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے۔ مجھے اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔ زندہ رہنے کے لئے تفریح کی میں بھی حامی ہوں لیکن اگر میں یہ کہوں کہ اس تفریح کا نتیجہ آپ کے بچے کے لئے آئندہ 25 تا 30 برس میں جوڑوں کے درد، امراض قلب اور ٹوٹتی، بکھرتی ہڈیوں کی صورت میں نکلے گا تو کیا آپ میری بات پر یقین کریں گی؟آپ کو یقین کرنا ہی پڑے گاکیونکہ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ جدید دور کی خوراک ہم کو توانا نہیں بلکہ مزید بیمار کررہی ہے اور بچوں پر اس کے اثرات بڑی حد تک منفی مرتب ہوہے ہیں۔ حال ہی میں ایک ماہر غذا نے بتایا ہے کہ بچوں کی غذا میں کیلشیم کی مقدار دن بدن گھٹ رہی ہے جس کے نتیجے میں ان کے لئے مستقبل میں، امراض میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ کیلشیم کی کمی کسی خاموش قاتل کی طرح ہمارے بچوں کا شکار کررہی ہے لیکن مقام فکریہ ہے کہ اس بارے میں ہمیں تب پتا چلتا ہے جب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔کیلشیم ہمارے اعصاب کو باندھ کر رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ دماغ سے جسم کے مختلف اعضا تک پیغام لے جانے والے عصبیوں کی تشکیل اور زندگی کے لئے بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر کسی طور جسم میں کیلشیم کی مقدار کمی ہو جائے تو اس سے ہمارے جسم کے مختلف افعال بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ مثلاً دل کا فعل بگڑنے لگتا ہے اور اس کے مسائل سے نمٹنا آسان نہیں ہوتا۔کیلشیم ہمارے جسم میں غذا کے نظام ہضم کے ذریعے جذب ہوتا ہے۔ جسم کے کچھ خاص حصوں میں روزانہ ضرورت کے مطابق کیلشیم جمع ہوتا ہے اور غیر ضروری کیلشیم ضائع ہوتا رہتا ہے۔ یہ ایک مستقل عمل ہے جو تاحیات چلتا رہتا ہے۔ اگر کبھی جسم میں کیلشیم ضائع ہونے کا عمل، کیلشیم جمع کرنے کے عمل سے تیز ہو جائے تو خرابی پیدا ہوتی ہے۔ اس خرابی کا پتا ابتدائی مراحل میںصرف خون کے تجزئیے سے ہی ہوسکتا ہے لیکن عام طور پر لوگ اس سے واقف نہیں ہوتے ہیں اور کیلشیم کے لئے خون کا تجزیہ نہیں کرواتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص جوڑوں میں درد کی شکایت کرتا ہے تو کچھ ڈاکٹر کیلشیم کی کمی کے بجائے کسی اور مرض کے علاج پر توجہ دیتے ہیں جس کا اثر بھی یقینا الٹا ہوتا ہے۔
چھوٹی عمر سے ہی فاسٹ فوڈ اور کولڈڈرنکس میں موجود تیزابی اثرات کیلشیم کے اجزاء کو توڑنے کے لئے تیزی سے کام کرتے ہیں۔ ایک اور منفی رحجان جو شہروں میں جڑ پکڑ رہا ہے۔ والدین کی جانب سے بچوں کی بے جا لاڈ پیار اور نازنخرے کا بھی ہے۔ وہ ماں باپ جو نوکری پیشہ ہوں اپنے بچوں کو کم توجہ دے پاتے ہیں تاہم انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچے کے ساتھ زیادتی کررہے ہیں۔ اپنی اس خلش کو مٹانے کے لئے وہ بچوں کو من مانی کردیتے ہیں۔
کئی والدین اپنے بچوں کو باہر گھمانے پھرانے کے لئے بھی فاسٹ فوڈ ریستورانوں کی طرف لے جاتے ہیں۔ چونکہ انہیں اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع نہیں ملتا لہٰذا وہ کھانے پینے کے لئے بچوں کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں لیکن اس کا سب سے پہلا اثر دودھ کے گلاس پر پڑتا ہے۔
بچوں میں دودھ دودھ کے ناکافی استعمال سے کیلشیم کی مقدار گھٹ جاتی ہے جس کا ردعمل عمر کے آخری مراحل میں سامنے آتا ہے۔ اس عمر میں کیلشیم کی مقدار بڑھانے سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ یہ نقصان ہونا ہوتا ہے، وہ ہوچکا ہوتا ہے۔ دنیا سے جلد رخصت ہو جانے والوں کی 30فیصد تعداد ہڈیوں کی شکستگی کی بیماری ’’اسٹیوپوروسیس‘‘ میں مبتلا ہوتی ہے۔ اس بیماری میں ہڈیوں میں سوراخ ہو جاتے ہیں اور ان کے جھڑنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ اگر اس دوران ہڈی ٹوٹ جائے تو اس کے جڑنے کا عمل بہت سست رفتاری سے ہوتا ہے جبکہ جوڑوں کے درد کی وجہ سے مریض کو ناقابل بیان حد تک تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے۔عورتوں کو یہ مرض زیادہ کثرت سے متاثر کرتا ہے کیونکہ اس کا تعلق ان کے جسم میں موجود ہارمونز کے نظام سے بھی ہوتا ہے۔ سن یاس کے دوران جب عورتوں کو ایسٹروجن کی مقدار قدرتی طور پر نہیں ملتی ہے تو انہیں اضافی ہارمونز استعمال کرنے پڑتے ہیں لیکن اس کے نتیجے میں ان میں چھاتی کے سرطان کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ وہ ابتداء ہی سے اپنی غذا میں کیلشیم کی مقدار زیادہ رکھیں تاکہ ان کی ہڈیاں مضبوط رہیں اور ان میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہو۔ڈاکٹروں کے مطابق بازار میں کیلشیم کی اضافی مقدار پر مبنی سپلیمنٹس مل رہے ہیں لیکن انہیں جسم میں جذب ہونے میں کافی وقت لگتا ہے چنانچہ سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ کیلشیم کو قدرتی طور پر استعمال کیا جائے۔عام طور پر مردوں اور عورتوں کو روزانہ 800ملی گرام کیلشیم کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ حاملہ عورتوں کو روزانہ 1200ملی گرام کیلشیم درکار ہوتا ہے۔ بچوں کو بھی بالغوں کے مساوی کیلشیم کی ضرورت رہتی ہے۔ اگرچہ جسم کے لئے کیلشیم کی مقدار کا تعین وزن سے بھی ہوتا ہے لیکن چونکہ بچوں میں نشوونما کا عمل جلدی ہوتا ہے لہٰذا وہ کیلشیم کی زیادہ مقدار استعمال کرسکتے ہیں۔عام طور پر ایک گلاس دودھ،دہی کا ایک کپ، ایک اونس پنیر یا آئس کریم کا ایک کپ کیلشیم کی روزانہ مقدار فراہم کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک گلاس تازہ اورنج جوس میں صرف 100ملی گرام کیلشیم ہوتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ بچوں کو ایک کپ آئس کریم سے روزانہ یہ مقدار مل جاتی ہے۔ مگر بہت سی لڑکیاں دودھ کا گلاس اس لئے نہیں پیتی ہیں کیونکہ انہیںموٹاپے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایسی لڑکیاں کم چکنائی والا دودھ استعمال کرسکتی ہیں۔ دودھ میں موجود وٹامن ڈی، جسم میں کیلشیم کو ہضم کرنے میں بڑی مدد دیتا ہے۔ عمر کے ہر حصے میں موجود لوگوں کو دودھ کا ایک گلاس روزانہ پینا چاہیے۔ دودھ کے ایک گلاس میں 150کیلوریز ہوتی ہیں کم چکنائی والے دودھ میں 120کیلوریز ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس ایک کولڈ ڈرنگ میں بھی اتنی ہی کیلوریز ہوتی ہیں۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ہم ایک گلاس دودھ روزانہ استعمال کرلیا کریں۔تاہم کیلشیم کا زیادہ استعمال بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
اس سے جسم میں زہریلے اثرات پھیل جاتے ہیں جس سے گردوں میں پتھری بھی ہوسکتی ہے۔ اگرچہ یہ مرض قابل تشخیص اور قابل علاج ہے تاہم پھر بھی احتیاط لازم ہے۔ جسم میں کیلشیم کی زیادتی سے ہڈیاں موٹی بھی ہو جاتی ہیں جو کوئی اچھی بات نہیں ہے۔
ڈاکٹر یہ بھی کہتے ہیں کہ موٹے لوگوں کی ہڈیوں پر زیادہ دبائو ہوتا ہے کیونکہ ان کے ڈھانچے پر گوشت کی زیادہ مقدار ہوتی ہے۔ اگر ہڈیاں کمزور ہوں تو پھر گوشت کی زیادہ مقدار سے ان پر دبائو پڑتا ہے جو درد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لہٰذا موٹے لوگوں کو اپنا وزن کم کرنا چاہیے اور اپنی غذا میں کیلشیم کی مناسب مقدار شامل رکھنی چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں