مہمان نوازی انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلق میں ایک اعلیٰ وصف ہے‘ آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جامع اور افضل الرسلﷺ فرمایا ہے۔ آپ ﷺ کی پاکیزہ سیرت میں مہمان نوازی کی صفت اتنی اعلیٰ تھی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ آپ ﷺ کی حیات مبارکہ ایسے واقعات سےبھری پڑی ہے جن میں آپﷺ نے مہمان نوازی کے اعلیٰ ترین معیار کا نمونہ قائم فرمایا۔ مہمان نوازی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے یہ ان اخلاق حمیدہ میں سے ہے جو معاشرے کے لیے بہ منزلہ روح کے ہیں۔ یہ خلق معاشرے میں امن و احترام اور تعاون کی فضا پیدا کرتا ہے۔ اسی وجہ سے سرور کونین رسول اکرم ﷺ ضیف (مہمان نوازی) کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے۔ مگر آج ہم اگر اپنے معاشرے‘ اپنے گھروں میں نگاہ دوڑائیں تو مہمان نوازی ناپید ہوکر رہ گئی ہے‘ ایک وہ دور تھا جب مہمانوں کی آمد سے ہفتہ پہلے ہی گھر میں ان کے آرام‘ ان کی پسند کے کھانے‘ ان کے اٹھنے بیٹھنے کا خاص انتظام شروع ہوجاتا تھا‘ مہمان کو رحمت کا فرشتہ سمجھا جاتا تھا‘ مگر جوں جوں ہمارے معاشرے نے ترقی کی مہمان نوازی کو زوال آتا گیا۔ اب حال یہ ہے کہ ادھر مہمان کے آنے کی خبر ملی اُدھر ٹیلی فون اٹھایا کھانے کا آرڈر دیا اور اطمینان سے بیٹھ گئےیا مہمان کو سیدھا ہوٹل بلایا ادھر کھانا کھلایا اور ادھر سے واپس اس کے گھر بھجوا دیا۔ نہ آنے والی نسل نے رشتوں کی قدر دیکھی اور نہ ہی مہمان نوازی۔ ’’مہمان باعث رحمت ہیں‘‘ یہ بات سنے عرصہ بیت گیا‘ زیادہ پیچھے نہ جائیں صرف پندرہ بیس سال پہلے مہمان کیلئے گھر کیا دل کے دروازے کھلتے تھے‘ مہمان کو شہزادوں جیسا پروٹوکول دیا جاتا تھا‘ مگر ہمارے معاشرے کی یہ شاندار روایات ابھی ناپید ہوتی جارہی ہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا کہ مہمان نوازی ایمان کا حصہ ہے۔ آئیے! نبی کریم ﷺ کے مہمان نوازی کے حوالے سے ارشادات و واقعات آپ کی نذر کرتا ہوں:۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے تو وہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (صحیح مسلم)۔ ایک موقع پر آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہٗ کو ارشاد فرمایا: تمہارے مہمانوں کا تم پر حق ہے۔ (صحیح بخاری)۔ مہمان نوازی کو ایک فرض قرار دیتے ہوئےرسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے‘ ایک دن اور ایک رات تک اس کی (مہمان) خدمت تو اس کاانعام شمار ہوگی جبکہ تین دن تک مہمان نوازی ہوگی‘ اس کے بعد کی خدمت صدقہ ہے‘ مہمان کیلئے مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ ٹھہرا رہے اور اسے (میزبان کو) تکلیف میں ڈالے۔ (سنن ابوداؤد)۔جب ہم آنحضور ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں مہمان نوازی کے بے شمار واقعات پاتے ہیں۔ مہمان نوازی کے حوالے سے آنحضور ﷺ کا یہ دستور تھا کہ آپﷺ کے گھر جب کوئی مہمان آتا جو بھی میسر ہوتا مہمان کی خدمت میں پیش فرماتے۔ بعض اوقات کھانے کے دوران اگر کوئی آجاتا تو اسے بے تکلفی سے اپنے ساتھ شامل فرمالیتے۔ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں جو بھی انتظامی ڈیوٹیاں تقسیم ہوئیں ان میں سے آپ ﷺ اپنے ذمے بھی کچھ نہ کچھ ذمہ داری لیتے۔ جب کافی تعداد میں مہمان آجایا کرتے تو آپ ﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں مہمانوں کو تقسیم فرمادیتے اور اپنے ساتھ بھی مہمانوں کو گھر لے جایا کرتے۔ ابتدائی زمانہ غربت کا تھا‘ نیز آپ ﷺ کو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی فاقہ کشی کا علم تھا‘ اس لیے جب بھی کھانے کے ظاہری اسباب میسر آتے‘ چاہے وہ تھوڑےسے ہی ہوں آپ ﷺ اس یقین کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ میری دعا سے برکت ڈالے گا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بلوا لیتے اور ان لوگوں کوبھی بلوا لیتے جو بھوکے وہاں موجود ہوتے تھے تاکہ ان کی بھی مہمان نوازی ہوجائے۔ بسا اوقات آپ ﷺ نے مستقل اپنے ہاں مہمان ٹھہرائے اور ان کیلئے مستقل خوراک کا انتظام فرمایا۔ بعد ازاں جب وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ ﷺ ان کی بھی مہمان نوازی کا انتظام فرماتے۔ ہرموقع پر آپﷺ اس تلاش میں رہتے تھے کہ کسی طرح مہمان کی خدمت کا موقع ہاتھ آئے‘ حضرت عبداللہ بن طھفہ رضی اللہ عنہٗ بیان فرماتے ہیں ایک دن رسول اکرم ﷺ کچھ مہمان گھر لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ارشاد فرمایا: کھانے کیلئے کچھ لائیں‘ آپﷺ نے کھانا پیش کیا جو ہم نے تناول فرمایا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے دوبارہ فرمایا کہ کھانے کیلئے کچھ لائیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حریسہ نامی کھانا پیش کیا جو ہم نے کھالیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: کچھ پینے کیلئے لائیں‘ وہ ایک پیالے میں دودھ لائیں جو ہم نے پی لیا۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: چاہو تو یہیں سوجاؤ یا مسجد میں چلے جاؤ‘ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ ہم آپ ﷺ سے اجازت لے کر مسجد میں آکر سوگئے۔ (سنن ابوداؤد)
حضرت ام سلیمؓ نے آنحضورﷺ کی خدمت میں ’’حیس‘‘ نامی کھانا تیار کروا کر حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کے ہاتھ بھجوایا۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اس برتن کو یہیں رکھ دو اور کچھ افراد کے نام لیے کہ انہیں بلاؤ اور ہر وہ شخص جو تمہیں ملے تواسے کہنا کہ میں میں بلارہا ہوں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ جب میں واپس آیا تو گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ پھر میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے اپنا دست مبارک اس کھانے پر رکھا اور اسے برکت دینے کیلئے کچھ دیر دعا کرتے رہے۔ پھر آنحضور ﷺ دس دس افراد کو بلوانے لگے جو اس برتن میں سے کھاتے تھے۔ آپ ﷺ ان سے فرماتے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے‘ آپﷺ اسی طرح ان سب کو کھلاتے رہے یہاں تک کہ ان سب نے کھالیا۔ (صحیح بخاری)۔ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے اپنے تقریباً 130 صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کیلئے ایک بکری خریدی اور اسے ذبح کروایا جو ان سب صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کیلئے کافی ثابت ہوئی۔ (صحیح مسلم)
قارئین! آئیے مہمان نوازی کو اپنا پھر سے شعار بنالیں اور اپنے گھروں اور دلوں سے نفرتوں کو مٹا کر نبی کریم ﷺ کی سنت اپنالیں اور گھروں میں سکون راحت کے چراغ جلالیں۔ اپنے معاشرے کی اس شاندار روایت کو پھر سے زندہ کریں۔ مہمان کو زحمت نہیں رحمت سمجھیں پھر دیکھیں کیسے اللہ کریم کی رحمتوں سے آپ کا گھربھر جاتا ہے اور گھر سے ناچاقی‘ جھگڑے اور تنگدستی کیسے جاتی ہے؟اللہ تعالیٰ ہمیں مہمان نوازی کے حوالے سے اپنے نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے اور ہمیں ایک اچھا مہمان نواز بنائے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں