بستر کے قریب اژدھا: ابھی قریب کی بات ہے‘ رات تہجد کےو قت اٹھا ‘میں نے اپنے قریب ایسے سرسراہٹ سی محسوس کی نامعلوم کیا احساس تھا‘ بس محسوس کیا کہ کچھ ہے؟ دیکھا تو ایک بہت بڑا سانپ اور بہت موٹا بالکل سفید رنگ کا‘ کنڈلی مارے سویا ہوا ہے‘ اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خراٹے لے رہا ہے‘ میں حیران ہوا کہ یہ سانپ اتنا موٹا تمام دروازے بند‘ کوئی بل نہیں‘ کوئی سوراخ نہیں‘ کوئی راستہ نہیں‘ یہ کہاں سے آگیا؟ پھر میں اپنے معمولات میں مشغول ہوگیا‘ میرے معمولات چلتے رہے ‘میں کچھ دیر کے بعد اسے مڑ کر دیکھتا تو پھر ویسے ہی وہ سورہا‘ جب میں اپنے معمولات سے فارغ ہوا‘ میں اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے بندے جو بات کرنی ہے کر‘ جس مقصد کیلئے آیا ہے اپنا مقصد بتا‘ سانپ نے سر اٹھایا اور سر اٹھا کر کہنے لگا: دراصل میں سمندر کے نیچے رہنے والا ایک جن ہوں‘ میں نے اپنے ایک دوست سے آپ کی شہرت سنی‘ بس میں وہاں سے سفر کرتا ہوا آپ کے پاس آیا ہوں‘ قطر اور بحرین کے درمیان ایک جزیرہ ہے میرا قیام وہی ہے اور کبھی ہم جزیرہ میں مگر اکثر وقت سمندر کے نیچے گزارتے ہیں‘ میرے کچھ مسائل ہیں اور میری کچھ مشکلات ہیں میں نے پوچھا کیا مسائل اور مشکلات ہیں؟ کہنے لگا میرے اوپر سخت جادو ہوگیا ‘ سخت بندش لگی ہوئی ہے ‘ جادو اور بندش نے میری زندگی کا جینا حرام کردیا ہے۔انسان کتنے خوش قسمت ہیں:میرے دن رات کے مسائل‘ غم ‘دکھ‘ تکالیف اور الجھنیں ایسی ہیں کہ میں موت مانگتا ہوں؟ پر کیا کروں؟ ہماری عمریں بڑی ہیں اور غیرطبعی موت مرنا نہیں چاہتا اوربظاہر جلدی موت آنہیں سکتی۔ ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگا کہ انسان کتنے خوش قسمت ہیں کہ ان کی عمریں چھوٹی ہیں‘ اگر کسی پریشانی‘ دکھ‘ تکلیفوں اور ناگواری میں آبھی جائیں تو جلدی مرجاتے ہیں‘ ہم تو اپنی مرضی سے جلدی مر بھی نہیں سکتے۔ یہ بات کہتے ہی وہ رو پڑا ‘وہ سانپ تھا‘ ایک سفید سانپ جس پر ہلکے ہلکے سفید بال تھے اور وہ اپنے حسن و جمال میں آخر تھا لیکن اس کی زبان میں فصاحت اور بلاغت تھی۔ اس کے لفظوں میں پورا کا پورا الفاظ کا ایک ذخیرہ تھا اور وہ مجھ سے مسلسل بات کررہا تھا‘ لیکن وہ بات کم اور رو زیادہ رہا تھا۔میں ان جنات میں سے ہوں!کچھ دیر کے بعد بولا :خود میرا اپنا بیٹا میری نافرمانی کرگیا دراصل میری تین شادیاں ہیں‘ پہلی شادی میں میرا بیٹا جو کہ بالکل جوان ہے‘ کوئی کاروبار نہیں کرتا ‘سارا دن ادھر ادھر پھرتا رہتا ہے اور انسانوں کی جوان عورتوں کو بے جا تنگ کرتا ہے‘ غلط کام کرتا ہے‘ میں مسلمان ہوں! میں ان جنات میں سے ہوں جنہوں نے محمدبن قاسم رحمۃ اللہ علیہ کے قافلے کو دیکھا ‘میں ان جناتمیں سے ہوں جنہوں نے حجاج کے ظلم و ستم کو آنکھوں سے دیکھا‘ اس میں کئی مسلمان اولیا ء‘صالحین‘ محدثین‘ مفسرین اور اللہ کے نیک بندوں کی مدد بھی کی تھی اور حجاج کے ظلم سے بچایا۔ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو فقہا علماء اوربڑے بڑے بزرگوں کی محفل میں بیٹھا اور ان کی محفل میں بیٹھ کر میں نے بہت زیادہ فیضان حاصل کیا ہے۔ میں ان جنات میں سے ہوں جنہوں نے زندگی اللہ والوں کے قدموں میں گزاری ہے‘‘ ان کے علاوہ میں نے کئی جوگیوں سادھوؤں کے ساتھ بھی وقت گزارا۔ مجھے انہوں نے ایسے ایسے انوکھے عمل دئیے ہیں اگر میں وہ کرلوں تو میرا بیٹا صرف تین گھنٹوں میںتڑپ سکتا ہے (یعنی مر جائے گا) لیکن اپنے بیٹے کو میں نے اپنے ہاتھوں پالا‘ پوسا ‘جوان کیا‘ مگروہ آج بے شرمی اور بے غیرتی کی انتہا تک پہنچا ہوا ہے اور میں پریشان ہوں کہ میں کیا کروں؟۔ اکتہر منٹ تڑپے گا اور مرجائے گا:بس اسی پریشانی میں میرے مسائل بڑھتے چلے جارہے ہیں‘ پھر اس نے مجھے خود کہا کہ چاندنی رات جس رات گزر جائے‘ اس سے اگلی رات ایک ایسی پرانی قبر کے ساتھ بیٹھیں جو بہت بوسیدہ ہو‘ شمال کی طرف منہ کرکے صرف اکتہر بار یہ لفظ پڑھیں بس وہ لفظ پڑھتے ہی آپ جس کا تصور کریں گے وہ وہیں تڑپنا شروع ہوجائے گا۔ ٹھیک اکتہر منٹ تڑپے گا اور اکتہرمنٹ کے بعد وہ سکون میں آجائے گا ‘پھر اکتہر منٹ کے بعد سکون آئے گا اور پھر اکتہر منٹ اور تڑپے گا اور اگلے اکتہر منٹ وہ پھر سکون میں آجائے گا۔ اسی طرح سات بار ایسا ہوگا اور سات بار کے بعد اس کا جسم ٹھنڈا ہوجائے گا اور وہ مرجائے گا۔تڑپ کر کہنے لگا: میں یہ عمل بھی کرسکتا ہوں لیکن کیا کروں؟ بیٹا ہے! مزید کہنےلگا: ایک مجھے جوگی انسان ملا‘ میں نے اس کی بہت عرصہ سیوہ اور خدمت کی جب اس کی خدمت سے اس کا دل جیت لیا تو میں نے اس سے کچھ عمل مانگا ۔کہنے لگا: ایک ایسا عمل دوں گا تیرے دشمن کا ہر نشانہ چوک جائے گا‘ ہر قدم ٹوٹ جائے گا‘ ہر منزل کھو جائے گی‘ مسائل ہی مسائل‘ پریشانیاں ہی پریشانیاں اور مشکلات ہی مشکلات اس کی زندگی میں ہوں گی اور وہ مشکلات میں ایسا پھنستا ‘دھنستا چلا جائے گا کہ اس کی زندگی بے معنی ہوجائے گی۔ اس کے دن رات مشکل میں ہوں گے‘ وہ مرنا چاہے گا مر نہیں سکے گا‘ وہ رونا چاہے گا رو نہیں سکے گا‘ وہ تڑپنا چاہے گا تڑپ نہیں سکے گا۔ اس کی زندگی میں مسلسل حالات‘ پریشانیاں اور غم ہی غم ہیں اور ہوں گے۔ وہ ایسی زندگی گزارے گا جس زندگی میں وہ زندگی کو خود سسک جائے گا اور ترس جائے گا۔ اس سے رزق چھن جائے گا‘ دولت اس سے دور ہوجائے گی‘ گمنامی اس کا مقدر بن جائے گی‘ کوئی اس کو دیکھنا تو کیا تھوکنا بھی پسند نہیں کرے گا‘ اولاد مر جائے گی‘ گھر لٹ جائے گا‘ زندگی ویران ہوجائے گی‘ اس کی بہار کے سارے پتے گر جائیں گے‘ اسے قدم قدم پر خزاں ملے گی‘ سارے پل اس سے ٹوٹ جائیں‘ اسے کوئی کنارہ نہیں ملے گا‘کشتی نہیں ملے گی کہ منزلوں کو پار کرسکے ‘اگر ملے گی بھی تو راستے میں ٹوٹ جائے گی اور طوفان ہمیشہ اس کا سامنا کرے گا‘خوشیاں روٹھ جائیں گی حتیٰ کہ گھر کا تنکا تنکا ویری اور دشمن ہوجائے‘ اس کا گھرجسمانی بیماریوں کا مرکز بن جائے گا‘ اس کی روح ہمیشہ سسکتی اور اس کا دل ہمیشہ تڑپتا رہے گا۔ وہ خوشی مانگے گا غم ملے گا‘ وہ ٹھنڈا پانی مانگے گا ابلتا ہوا پانی ملے گا‘ وہ چھاؤں تلاش کرے گا‘ دھوپ بن جائے گی‘ وہ کسی کو ہاں کہے گا لیکن ہمیشہ نہ ہوگی۔ وہ سانپ جن کہنے لگا۔کیا دنیا میں ایسے سفلی علم بھی ہوتے ہیں: میں اس کی بات سن کر تڑپ اٹھا ‘کیا دنیا میں ایسے سفلی اور کالے عمل بھی ہوتےہیں‘ جو انسان کو اتنا تڑپا دیتے ہیں‘ نامعلوم میرے جی میں کیا آیا میں نے کہا :ہاں مجھے بتائیں کہنے لگا ایسا کر کوئی روڑی اور گندگی کا ڈھیر تلاش کر‘ پھر وہاں جا اور جسم کے کپڑے اتار دے۔ یاد رکھنا! اندھیری راتیں ہوں‘ چاندنی راتیں نہ ہوں‘ منگل کا دن ہو اور اسی کی شام ہو‘ روڑی میں گندگی کے ڈھیر میں گڑھا کھود‘ اپنے سینے اور کندھوں تک اپنے آپ کو اس میں چھپا لے‘ صرف تیرا سر باہر رہے‘ ہاتھ بھی اس کے اندر چھپ جائے‘ تجھے میں ایک کالی دیوی کا عمل دیتا ہوں اس عمل کو پڑھ تھوڑی دیر میں تجھے محسوس ہوگا کہ تیرا جسم خودبخود باہر آنا شروع ہوگیا ہے اگر تو محسوس کرے کہ تیرا جسم باہر آنا شروع ہوگیا ہے تو سمجھ لے تیرا عمل چل پڑا ہے اگر تو محسوس کر کہ تیرا جسم باہر آنا شروع نہیں ہوا تو سمجھ لے تیرا عمل نہیں چلا اور تو پھر میرے پاس آ اور جس وقت تو دیکھے کہ تیرا پورا جسم باہر آگیا ہے ادھر تو باہر آئے ادھر تیرا دشمن قبر یا چتا میں چلا جائے گااور تجھے راحت ملے گی اور تیرا دشمن ختم ہوجائے گا۔ یاد رکھ! یہ عمل صرف تین دن کرنا ہے‘ پہلے دن سے ہی تیرا کام ہوجائے گا‘ حد تیسرے دن اور تیسرے دن میں تیری منزل ملے گی۔ یعنی تیرا دشمن نامراد ہوجائے گا‘ بے نام و بے نشان ہوجائے گا ‘اگر تو اس کی قبر بنائے گا تو قبر کا نشان جلد مٹ جائے گا اور اگر تو اس کی چتا کی راکھ کی نشانی بنائے گا تو وہ بھی ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گی۔ کتے کی کھوپڑی ڈھونڈ:اگر تو چاہتا ہے اس عمل میں اور طاقت ہو اور تیرا دشمن بہت جلد بے نشان ہو تو پھر ایک کتے کی کھوپڑی ڈھونڈ اور اس کھوپڑی کو اپنے گلے میں ہار بنا کر پہن لےاور پھر تو اپنے آپ کو اس روڑی اور کوڑے کے ڈھیر پر بٹھا دے‘ اب دفن نہیں کرنا اب صرف بیٹھ جانا ہے اور کتے کی کھوپڑی کو دونوں ہاتھوں میں لے کر اس پر یہ منتر پڑھنا ہے اور پڑھتے رہنا ہے‘ تھوڑی ہی دیر کے بعد کتے کی کھوپڑی سے بھونکنے کی آواز آئے گی‘ کتا آوازیں نکالنا شروع کردے گا‘ اسے فوراً ڈانٹ دینا‘ کہنا تیری آواز نہیں چاہیے‘ جو دشمن جس کو تو ختم کرنا چاہتا ہے اس کی آواز کے بارے میں کہنا مجھے اس کی آواز ختم کرنی ہے۔ وہ کتا تیری بات نہیں سنے گا وہ بھونکتا رہے گا‘ اسے پھر حکمانہ انداز سے یہی بات کہنا کہ خاموش ہوجا! مجھے تیری آواز نہیں چاہیے بلکہ مجھے صرف اور صرف یہ چاہیے کہ میرا دشمن کا خاتمہ! مجھے میرا دشمن میری آنکھوں کے سامنے ختم چاہیے‘ مجھے ذلیل نہیں چاہیے‘ مجھے خوار نہیں چاہیے‘ مجھے رسوا نہیں چاہیے‘ مجھے غریب نہیں چاہیے‘ مجھے تنگ دست اورمفلس نہیں چاہیے‘ مجھے صرف اس کی موت چاہیے۔ وہ کتا پھر تیری نہیں سنے گا ‘تیسری دفعہ اس کھوپڑی کو زور سے تھپڑ مار اور تھپڑ مار کر اپنے دشمن کا نام لے اور کہہ کہ مجھے اس کی موت چاہیے‘ اب تیسری دفعہ وہ کتا خاموش ہوجائے گااور اس کے غرّانے کی آواز آئے گی اسی طرح جس طرح اس نے تیرے دشمن کی گردن پر اپنے دانت گاڑھ دئیے اور پھر تجھے تیرے دشمن کی تڑپنے کی آوازیں آئیں گی‘ اس کے خون کے فوارے چھوٹنے کی آوازیں آئیں گی‘ اس کی سانسوں کی لڑیاں ٹوٹنے کی آوازیں آئیں گی بس اس وقت تک خاموش اپنا عمل کرتا رہ‘ اس کے بعد جب کتے کے غرانے کی آوازیں ختم ہوجائیں سمجھ جا تیرا دشمن ختم ہوگیا ۔جاکر اپنے دشمن کو دیکھ:جوگی اپنے سینے پر ہاتھ مار کر کہنے لگا میں دعویٰ سے کہتا ہوں تو نے اتنا عرصہ میری خدمت کی پھر جاکر اپنے دشمن کو دیکھ اس کی گردن پر کتے کے دانت گڑھے ہوں گے‘ اس کا جسم لہولہان ہوگا اور وہ تڑپ رہا ہوگا‘ اس کی جان نکل گئی ہوگی وہ جوگی جوش میں آگیا اور جوش میں آکر کہنے لگا: اپنی زندگی کو ایسے پریشان نہ رکھنا‘ دشمن سے انتقام لیتے رہنا۔ اس کو کبھی معاف نہ کرنا‘ اس کو کبھی موقع نہ دینا‘ دشمن کو کبھی کمزور نہ سمجھنا‘ اس کا سر کچلتے رہنا‘ اس کی زبان گدی سے نکال دینا ‘اس کی آنکھیں باہر نکال دینا‘ اس کے بازو‘ ہاتھ کاٹ دینا ۔سانپ جن یہ باتیں کہہ رہا تھا اور میں سن کر لرز گیا تھا‘ وہ جوگی تھا یا کوئی ظالم تھا یا کوئی درندہ تھا۔اس سے بھی زیادہ زہریلے عمل ہیں: سانپ جن کہنے لگا میرے پاس اس سے بھی زیادہ زہریلے عمل ہیں جو میں کرنا چاہوں تو کرسکتا ہوں وہ ایسے زہریلے عمل ہیںجو ایک عمل میں دشمن کو تڑپا کر ہلاک کر کے رکھ دیں‘ اس کا کلیجہ پھاڑ دیں‘ اس کاجگر چیر دیں‘ آنکھیں باہر نکال دیں اور اس کی کھوپڑی پھٹ جائے لیکن کیا کروں بیٹا ہے! لیکن اس نے مجھے بہت بے عزت کیا ہے‘ اس نے مجھے بہت ذلیل و رسوا کیا ہے‘ میں نے آج تک کسی کی بیوی کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھا لیکن اس شخص نے ہمیشہ مجھے ذلیل‘ بدنام‘ رسوا اور خوار کیا ہے۔ میں تھک گیا ہوں میں تنگ آگیا ہوں‘ کیا اس کا کوئی حل ہے یا تو وہ خود طبعی موت مر جائے یا پھر اسے ہدایت مل جائے‘ میرے سامنے ہاتھ جوڑنے والے انداز کی آواز نکال کر کہنے لگا: میں آپ کے سامنے زاری کرتا ہوں ‘آپ کی منت کرتا ہوں ‘خدارا مجھے اس بیٹے کے شر سے بچائیں ‘وہ عورتوں کو تنگ کرتا ہے‘ وہ نوخیز لڑکیوں کی عزت کی آبرو ریزی کرتا ہے‘ لوگوں کو ذلیل اور پریشان کرتا ہے‘ وہ ہرشخص کو دھکا دیتا ہے‘ لوگوں کے پیسے چراتا ہے‘ لوگوں کا مال غصب کرتا ہے‘ لوگوں کی عزتوں کو تار تار کرتا ہے۔ میں کیا کروں؟ میں تھک گیا ہوں‘ میرا یہ ایک بیٹا مر جائے گا مجھے اللہ نے اور بہت سے بیٹے دئیے ہیں لیکن میں اس کے شر سے کم از کم محفوظ ہوجاؤں گا ۔اس کاکوئی مداوا ہے ‘اس کا کوئی حل‘ وہ رو رہا تھا میں اس کا غم سن رہا تھا اس کے درد کو دیکھ رہا تھا۔ میں معافی کا قائل ہوں: میرے اعصاب جواب دے گئے تھے اس لیے نہیں کہ اس کا بیٹا نافرمان ہے‘ یہ داستانیں تو میں روز سنتا ہوں۔ جو اس نے خطرناک عمل بتائے اورایسے عمل کہ جس میں معافی کی کوئی گنجائش تک نہیں رکھی‘ ایسی سفاکی اور ایسا جذبانی اورہیجانی عمل جس سے کسی کو سنبھلنے کا موقع نہ دیا جائے اور معافی کا کوئی لفظ اس میں موجود بھی نہ ہو‘ میں خود اس کاقائل نہیں ہوں‘ میں معافی کا قائل ہوں‘ درگزر کا قائل ہوں۔ میری زندگی میں دن رات بہت آئے ہیں لیکن مجھے ایسے جوگیوں کی ضرورت کبھی نہیں رہی۔ خود میرے پاس اپنے طاقتور عمل ہیں جوگی کہتا ہے کتے کی کھوپڑی باندھ‘ جوگی کہتا ہے روڑی کے ڈھیر پر جا‘ جوگی کہتا ہے اپنے آپ کو روڑی میں دفن کر‘ جوگی کہتا ہے کتے کی کھوپڑی پرتھپڑ مار۔ میں کہتا ہوں کہ صرف تہجد کے وقت اٹھ کر قرآن پاک کی آیت ہے اس کو سانس روک کر پڑھ بس! اور اپنے دشمن کا تصور کر جس وقت سانس تیرا ٹوٹے گا اور تیرے دشمن کا سانس بھی ٹوٹ جائے گاور اس کا جسم ٹھنڈا ہوجائے گا‘ یہ سب کچھ اپنے بستر پر بیٹھ کر کرنا ہے لیکن کیا میں موت کو بھول گیا ہوں‘ کیا قبر کی کوٹھڑی‘ کیا وہ منزل آخر موت موت ہے اور مجھے موت کی طرف جانا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں