’’معالج! آخر یہ کیسی تھکن ہے جس نے مجھے بے بس کردیا ہے؟‘‘ یہ جملہ تقریباً روز ہی سنتا ہوں۔ تھکن کی شکایت نے آج کے ہر مرد اور عورت کو پریشان کر رکھا ہے۔ اس کے مریض مجھ سے علاج طلب کرتے ہیں۔ وہ اکثر اوقات اس کے اسباب کا خود کھوج لگا نہیں پاتے ہیں۔ لوگ پستی کا شکار ہوں تو سوتے بھی خوب ہیں، لیکن کتنے ہی مریض اچھی نیند کو ترستے ہیں، کیوں کہ کسی کو مثانے کے غدود (پروسٹیٹ) کی شکایت بار بار ٹائلٹ لے جاتی ہے تو بعض کولا مشروبات، کافی، چائے وغیرہ کے کثرت استعمال کی وجہ سے نیند سے محروم رہتے ہیں۔بعض افراد دن میں سکون بخش دوائوں (مسکنات) کے علاوہ بلڈپریشر کی دوائیں یا درد دور کرنے والی ادویہ استعمال کرنے کی وجہ سے بھی رات کی پرسکون نیند سے محروم رہتے ہیں۔ غرض یہ کہ اس شکایت کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔ مریضوں کو چاہیے کہ وہ خود اس کے اسباب کا جائزہ لیں اور اصل سبب کو دور کر کے اپنی توانائی بحال کریں۔مسلسل تھکن کی شکایت اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ آپ کسی نہ کسی مسئلے سے دو چار ہیں۔ اوپر بیان کیے گئے اسباب کے علاوہ اور بھی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں جن کا دور کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ان میں سرطان کا مرض میں شامل ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے جسم میں خون کی کمی ہو جس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے جگر، تھائیرائڈ اور گردوں میں کوئی خرابی ہو، بہرنوع اسباب کچھ ہوں، آپ کا اصل مسئلہ ہڈیاں چور کرنے والی تھکن ہوتی ہے جو رات بھر کی نیند کے باوجود صبح آپ کو بستر سے اٹھنے نہیں دیتی۔ کتنا ہی آرام کرلیں آپ خود کو بے حد تھکا ہوا پاتے ہیں۔ ہر کام مشکل اور ناممکن نظر آتا ہے۔ دفتر، گھر ہر جگہ تھکن کی وجہ سے آپ کی کارکردگی بہت خراب رہتی ہے۔ معالج سے رجوع کریں تو تمام رپورٹیں معمول کے مطابق قرار دی جاتی ہیں اور تشخیص یہی رہتی ہے کہ آپ تھکن کے پرانے شاکی ہیں۔تھکن کی پرانی شکایت (کرانک فیٹگ سینڈروم CFS) کو پہلی مرتبہ ۱۹۸۸ء میں ایک مرض تسلیم کیا گیا اور اس کی تین اہم علامات طے پائیں:۱۔ کم از کم چھے ماہ تک مسلسل جاری رہنے والی تھکن۔ٔتھکن جو ورزش یا جسمانی محنت کا نتیجہ نہ ہو۔جو آرام سے دور نہ ہوتی ہو۔جس سے کام کاج کے علاوہ سماجی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہوں۔۲۔جسے معالجین کسی مرض کا نتیجہ قرار نہ دیں۔۳۔درج ذیل میں سے کم از کم چار علامات موجود ہوں:کم مدتی یادداشت ختم ہو جائے یعنی تھوڑی دیر پہلے کی بات یاد نہ رہے۔ذہن اور دماغ کی کسی بات پر مرکوز کرنے کی صلاحیت باقی نہ رہے۔تازگی بخش نیند نہ آئے۔گلا خراب رہے۔غدود یا گلٹیاں دکھتی ہوں۔عضلات میںدرد ہو۔مختلف جوڑوں میں درد ہو۔شدت اور نوعیت کے لحاظ سے سر میں نئی قسم کا درد ہو۔جسمانی سرگرمی کے بعد ۲۴ یا اس سے زیادہ گھنٹوں تک تھکن رہے۔ان علامات کی صورت میں آپ کو اپنے معالج سے رجوع ہونا چاہیے۔تھکن کا یہ مرض مردوں کے مقابلے میں خواتین میں تین گنا زیادہ ہوتا ہے اور ہر عمر میں ہوتا ہے۔ ایک مرض تسلیم کرلیے جانے کے باوجود معالجین کی خاصی تعداد اسے محض پستی (ڈیپریشن) قرار دیتی ہے اور ان کا اصرار ہے کہ جسمانی معاینے اور خون کے ٹیسٹ سے کسی غیر معمولی وجہ کا کھوج لگ سکتا ہے۔خود میں بھی اسے محض ذہن اور دماغ کا مرض سمجھتا تھا، لیکن اب میں نے اپنی یہ رائے بدل دی ہے اور اسے واقعی ایک مرض تسلیم کرتا ہوں جو یقیناً جسم کے نظام مدافعت میں کسی نہ کسی خرابی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خرابی کسی چھوت (انفیکشن) وائرس، بیکٹیریا، الرجی یا ہارمونی عدم توازن کا نتیجہ ہو۔ بہرنوع اس کے باوجودیہ مرض ایک بھید اور بھول بھلیاں ہی ہے۔اس شکایت میں مبتلاافراد بے حد تھکن سے بھی زیادہ تھکاوٹ کے شکار رہتے ہیں اور ان کی علامات بھی بڑی مخصوص نوعیت کی ہوتی ہیں۔ ان میں سے اکثر پستی میں مبتلا رہتے ہیں۔ اب ایسے افراد کو آپ کیا کہہ سکتے ہیں۔ یہ ان کا گویا اپنا ایک انداز ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فلو جیسی شکایات کی بات بھی کرتے ہیں اور ان میں یہ علامات اکثر رونما بھی ہوتی ہیں۔ صحیح طور پر سوچنے سے معذور اور عموماً چڑ چڑے بھی ہوتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً ان کے گلے بھی خراب ہوتے ہیں اور بغل اور گردن کے غدود پھول جاتے ہیں۔ ان میں درد بھی ہوتا ہے۔ معمولی ورزش اور جسمانی محنت سے ان کا پورا جسم پھوڑے کی طرح دکھتا ہے۔علامات کی تفصیل آپ نے اوپر پڑھ لی ہے جس سے اندازہ ہوگیا ہوگا کہ تھکن کی کوئی ایک مخصوص علامت نہیں ہوتی۔ یہ ذیابیطس یا قلب کے مرض جیسا روگ نہیں ہے۔ اصولاً اس شکایت پر معالج کے لیے ضروری ہے کہ وہ پورے حالات اور تفصیل سنے، خون کے ٹیسٹ کراکر کسی مرض کا کھوج لگائے خاص طور پر کسی وائرس، بیکٹیریا وغیرہ کی نشاندہی کرے۔ اس کے علاوہ نیند کے بارے میں معلومات حاصل کرلے کہ مریض کو کیسی نیند آتی ہے، گہری یا اچاٹ، اس کے بعد وہ خود کو کیسا محسوس کرتا ہے تازہ دم یا تھکا ہوا، کیوں کہ یہ بھی اس مرض کا ایک اہم سبب ہوسکتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ مریض میں سرطان، ایچ آئی وی (ایڈز) کی موجودگی اور موٹاپے، شراب نوشی جیسی نشہ بازی کے بارے معلومات کرکے اصل سبب کا کھوج لگائے۔اس شکایت کی نوعیت ہر مریض میں مختلف ہوتی ہے۔ اکثر مطالعوں سے ظاہرہوا کہ ایک تہائی مریض پانچ سال کے اندر سنبھل جاتے ہیں جب کہ تقریباً آدھے مریضوں کے ٹھیک ہونے میں دس سال لگ جاتے ہیں، لیکن صحت یاب ہونے والے مریضوں میں بھی اس کی بعض علامتیں موجود رہتی ہیں۔میرا تجربہ بتاتا ہے کہ دوا ساز جو چاہیں دعوے کرتے رہیں، اس مرض کا کوئی مصدقہ علاج نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ بعض اقدامات کے ذریعے سے مرض کی علامات کم ہو جاتی ہیں مثلاً جو الرجی کا سبب بنتی ہوں۔ اسی طرح انہیں مالیاتی عوامل مثلاً گردو غبار، پرندوں اور جانوروں کے پر اور بالوں وغیرہ سے بچنا چاہیے۔ایسی سرگرمیوں سے بچنا چاہیے جو تھکن بڑھا دیتی ہوں۔ ورزش سے عموماً اس مرض میں فائدہ نہیں ہوتا جب کہ بعض معالجین اسے مفید قرار دیتے ہیں۔ ان کی رائے میں ہلکی پھلکی ائروبک ورزشیں اپنا اچھا اثر دکھاتی ہیں۔اس مرض کے علاوہ فلو کی علامات میں اسپرین وغیرہ سے مدد لینی چاہیے۔مانع پستی دوائوں سے نیند اچھی آسکتی ہے اور تھکن کم ہوسکتی ہے۔عمدہ اور غذائیت سے بھرپور غذا کھانی چاہیے مثلاً ثابت اناج، چھلکے والی دالیں، بے چھنا آٹا، بغیر پالش کے چاول، پھلیاں، مچھلی، تازہ پھل، سبزیاں شوق سے کھائے جائیں۔ شراب اور زیادہ چکنائی والی غذائوں سے بچا جائے۔معاون متبادل علاج:آیکوپنکچر اور ایکوپریشر سے بعض مریضوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ یہ بے ضرر علاج ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا چاہیے۔مغرب اور مشرق کے نباتی ماہرین علاج بعض بوٹیوں کو مفید قرار دیتے ہیں۔ ان میں ایکی نیشیا اور مشہور چینی دوا جن سنگ قابل ذکر ہیں۔ میرے مشورے کے مطابق اس کے مریضوں کو تازہ لہسن خوب کھانا چاہیے، کیوں کہ اس میں جسم کے نظام مدافعت کو تحریک دینےکی صلاحیت ہوتی ہے۔
مراقبے کے مختلف انداز بھی مفید ثابت ہوسکتے ہیں مثلاً چی گانگ اور یوگا۔ ان سے تھک کم ہوکر توانائی بڑھ جاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں