اسٹرابیری بڑے خوب صورت ڈبوں میں بازار میں فروخت ہوتی ہے، لیکن یہ جب دکان یا ٹھیلے پر رکھے رکھے خراب ہونے لگتی ہے تو اس پر مکھیاں آنے لگتی ہیں۔ جنہیں مارنے کے لیے بعض ٹھیلے والے ان ڈبوں پر مکھی مارا سپرے کردیتے ہیں۔ ایسا پھل سب کے لیے مضر ہوتا ہے۔
’’کیلشیم کاربائیڈ کی حرارت پر پکائے ہوئے پھل آپ کی جان لے سکتے ہیں‘‘ ان عنوان کے تحت ایک نجی اخبار میں پھلوں پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ پاکستان میں آم، کیلا، پپیتا، خوبانی، آلو بخارا اورجاپانی پھل املوک عام طور پر کاربائیڈ کے ذریعے مصنوعی طور پر پکایا جاتا ہے۔ ایسے پھل متعدد بیماریوں کا سبب اور بڑھاپے کو جلد لانے کا باعث ہوتے ہیں۔ اس لیے ہندوستان اور دوسرے ملکوں میں کاربائیڈ سے پھلوں کو پکانے پر پابندی ہے۔ لیکن افسوس کہ پاکستان میں زہر بیچنے اور کھلانے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اگر آپ کو اپنی صحت عزیز ہے تو کاربائیڈ سے پکائے ہوئے پھلوں سے بچنے کی کوشش کریں۔
ہاں آپ سیب، انگور، انار، تربوز اور خربوزہ کھا سکتے ہیں کیونکہ یہ کاربائیڈ سے نہیں پکائے جاتے۔ مزید افسوس کی بات یہ ہے کہ سگریٹ کے پیکٹ پر تو وارننگ چھاپ دی جاتی ہے، مگر کاربائیڈ سے پکائے ہوئے پھلوں کی پیٹیوں پر کچھ نہیں لکھتے ہیں۔ایک مقامی اخبار میں ایک مضمون ’’انار کا رس اور کینسر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا اس مضمون سے یہ تاثر ملتا ہے کہ انار تقریباً کینسر کی دوا کا کام کرتا ہے، مگر مجھے یہ اضافہ کرتا ہے کہ چوں کہ پاکستان میں پھل اور سبزیاں اچھی حالت میں عوام کو فراہم نہیں ہوتی ہیں، اس لیے انار درخت سے توڑنے کے بعد ایک دن سے زیادہ اس پر دھوپ نہ پڑی ہو۔ اگر دو دن ٹھیلے پر کہیں دھوپ میں پڑا رہا تو اس کی افادیت آدھی بھی نہیں رہے گی۔ اب اگر دوست، رشتے دار اسی علاقے میں ہوں جہاں انار پیدا ہوتا ہے تو وہ آپ کو باغ سے تازہ انار توڑ کر کارگو سروس کے ذریعے بھیج سکتے ہیں اور آپ ڈاکٹر یاحکیم کے علاج کو جاری رکھتے ہوئے انار کو کینسر کی دوا کے طور پر علاج کرنے کا تجربہ کرسکتے ہیں۔
پھول گو بھی ان سبزیوں میں سے ہے جو کینسر (سرطان) اور دوسری بیماریوں سے بچائو کے لیے بہت مفید ہوتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سبزی والے روزانہ منڈی سے سبزیاں نہیں لاتے ہیں، بلکہ ہفتہ میں ایک یا دو دفعہ جاکر تھوک کے حساب سے سبزیاں لے آتے ہیں۔ دوسرے دن جب گوبھی کا پھول کالا ہونے لگتا ہے تو گوبھی کو کیمیکل سے دھوتے ہیں۔ کیمیکل والی گوبھی ظاہر ہے ہمیں نقصان پہنچائے گی۔ اس سے بچنے کے لیے دوست یا کوئی تنظیم سب کے لیے روزانہ قریبی سبزی منڈی ‘کھیت سے سبزیاں پہنچانے کا بندوست کرے یادکاندار سے کہیں کہ وہ آپ کو تازہ سبزیاں دے۔اسٹرابیری بڑے خوب صورت ڈبوں میں بازار میں فروخت ہوتی ہے، لیکن یہ جب دکان یا ٹھیلے پر رکھے رکھے خراب ہونے لگتی ہے تو اس پر مکھیاں آنے لگتی ہیں۔ جنہیں مارنے کے لیے بعض ٹھیلے والے ان ڈبوں پر مکھی مارا سپرے کردیتے ہیں۔ ایسا پھل سب کے لیے مضر ہوتا ہے۔
ادرک اب تیزاب میں بھیگی ہوتی ہے یا نہیں پتا نہیں؟ اپنے بچائو کے لیے بہتر ہے کہ سونٹھ یا ادرک کا خشک پائوڈر استعمال کرلیں ورنہ پھر گملے یا کیاری میں ادرک لگادیں۔ اگر تیزاب نہ ہوگا تو بڑھے گی اور تیزاب والی ہوگی تو زمین کے نیچے ہی سڑ جائے گی۔پھلوں کا جوس خوبصورت ڈبوں میں بیچا جاتا ہے۔ ایک ڈبے پر میں نے دیکھا واضح الفاظ میں NECTAR لکھا تھا۔ یعنی آب حیات یا دیوتائوں کا مشروب لیکن ڈبوں پر اجزا (INGREDIENTS) بہت باریک لکھے جاتے ہیں تاکہ لوگ مضر صحت اجزا کو نہ پہچان پائیں۔
سیب کے جوس میں مصنوعی فلیور (خوشبو۔ ذائقہ) شکر اور فوڈ کلر ڈالنے کی ضرورت کیوں پڑی اور یہ کہ سیب کے جوس کے ڈبے میں ۵فیصد ہے یا ۲۵ فیصد۔ یہ گاہک کو پتا نہیں لگتا۔ یہ چند مثالیں ہیں کہ اس ملک میں غذائیں ایسی ملتی ہیں، جو بیماری کو ٹھیک کرنے کا نہیں بلکہ بیماری پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ کوئی بھی بیماری ہو، علاج چاہے آپ کسی بھی اپنی پسند کے حکیم یا ڈاکٹر سے کروائیں لیکن مضر صحت غذائوں سے پرہیز اور اچھی غذائیں آپ کی بیماری ٹھیک کرنے میں کافی مددگار ہوسکتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں