عام تتلیوں کی مانند لارج بلیو بھی زندگی کے چار ادوار میں سے گزرتی ہے‘ یعنی انڈا‘ لاروا‘ پیوپا اور تتلی‘ لیکن ایک بات ماہرین حیوانات کی سمجھ میں نہ آتی تھی۔ پیوپے کی شکل میں آنے کے بعد یہ تتلی نامعلوم طریقے سے غائب ہوجاتی اور تلاش کے باوجود اس کا سراغ نہ ملتا۔ چند ماہ بعد ایک صبح یہ تتلی کی صورت میں پھولوں کا طواف کرتی ہوئی نظر آتی۔
انیسویں صدی کے اواخر تک انگلستان کی تقریباً سب تتلیوں پر علمی تحقیق مکمل ہوچکی تھی لیکن لارج بلیو ابھی تک معمہ بنی ہوئی تھی۔ بارہا اس کے انڈوں کو تجربہ گاہ میں رکھا گیا‘ جہاں یہ لاروے کے بعد پیوپے کی صورت اختیار کرتی۔ اس موقع پر اس کی پسندیدہ خوراک‘ یعنی پودینے کےپتے بھی فراہم کیے جاتے لیکن پیوپے کی شکل میں آنے کے بعد پودینے سے اس کی رغبت ختم ہوجاتی‘ یہ کھانا چھوڑ دیتی‘سخت بے چینی محسوس کرتی‘ شیشے کے ڈبے میں ادھر اُدھر گھومتی اور پھر دم توڑ دیتی۔سائنس دان کئی برس تک اس مسئلے پر سر پٹکتے رہے‘ لیکن یہ معمہ حل ہونے میں نہ آتا تھا کہ پیوپے ڈبے میں مر کیوں جاتا ہے اور معمول کے مطابق تتلی کی صورت اختیار کیوں نہیں کرتا؟ اسکے برعکس جنگل میں تو پیوپا غائب ہوجاتا تھا‘ لیکن کچھ عرصے بعداچانک ظاہر ہونے والی تتلیوں سے معلوم ہوتا تھا وہ مرا نہیں۔
1915ء کی سردیوں میں اس راز پر سے پہلی بار پردہ ہٹا‘ تتلیوں کے مشہور محقق ایف‘ ڈبلیو فروہاک اور اس کے ساتھی ڈاکٹر چپ مین کے ساتھ کارنوال کے نواح میں جنگلی پودینے کی چھان بین کررہے تھے تاکہ پیوپے کی گمشدگی کا سراغ لگاسکیں۔ اتفاقاً انہوں نے پودینے کا ایک ایسا پودا اکھاڑا جو چیونٹیوں کے بل پر اگا ہوا تھا۔ بل کے اندرونی حصے پر نظر ڈالتے ہی پروفیسر فروہاک حیرت میں ڈوب گیا۔ ایک خانے میں لارج بلیو کا پیوپا لیٹا ہوا تھا۔ اس نے پیوپے کو اٹھایا اور اس کا پیٹ چاک کیاتو ایک اور راز کھلا پیوپے کا معدہ چیونٹی کے نوزائیدہ بچوں سے بھرا ہوا تھا۔پروفیسر نے سوچا پیوپا‘ چیونٹیوں کے بل میں کیسے گیا؟ کیا وہ ہمیشہ چیونٹی کے بل میں رہتا ہے؟ یہ اور اس کے قسم کے بہت سے سوالوں کے جواب اسے پریشان کررہے تھے۔ اس نے اپنے دو اور ساتھیوں کو جو تتلیوں کے ماہر سمجھے جاتے تھے اس کام پرلگایا۔ کیپٹن پیور فائی اور ایل ڈبلیو نیومین نے شیشی کے ایک صندوق میں چیونٹیوں کا ایک ایسا بل بنایا جس میں اخروٹ کے چھلکے استعمال کیے گئے تھے اور جسے بوقت ضرورت آسانی سے کھولا جاسکتا تھا۔ بل میں ایک ملکہ چیونٹی‘ دو درجن عام چیونٹیاں اور کچھ مصنوعی انڈے رکھ دئیے گئے۔ قریب ہی گملوں میں جنگلی پودینے کے پودے تھے۔ ان پر تین مادہ ’’لارج بلیو‘‘ تتلیاں چھوڑ دی گئیں۔
چیونٹیاں جلد ہی نئے گھر سے مانوس ہوگئیں۔ انہیں اپنی دل پسند خوراک مل رہی تھی۔ چند روز بعد تتلیوں نے پودینے کے پودے پر انڈے دئیے‘ مقررہ وقت کے بعد ان انڈوں میں سےسنڈیاں (لاروے)نکل آئیں اور پھولوں سے پیٹ بھرنے لگیں۔ بیس دن گزر گئے۔ حتیٰ کہ وہ مرحلہ آپہنچا جس کا شدت سے انتظار تھا۔لاروے نے پیوپے کی شکل اختیار کرلی اور جلد ہی پھولوں سے منہ موڑ کر اپنی بے قراری ظاہر کرنے لگا اس حالت کو زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ایک چیونٹی ادھر آنکلی اور پیوپے میں غیرمعمولی دلچسپی ظاہر کرنے لگی۔ اس کے گرد ایک دو چکر لگائے اور پھر پیوپے کا وہ پہلو گدگدانا شروع کیا جہاں اس کا منہ تھا۔ معلوم ہوتا تھا پیار کا اظہار کررہی ہے۔
کیپٹن پیورفائی اور نیومین اس کھیل کو بڑی دلچسپی اور تعجب سے دیکھتے رہے۔ چیونٹی‘ پیوپے کو گدگداتی رہی‘ حتیٰ کہ پیوپے نے اپنے منہ سے شہد کی مانند سیال شے کا ایک قطرہ نکالا‘ چیونٹی اس قطرے کو فوراً پی گئی۔ پیوپے اور چیونٹی کا یہ کھیل ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں پیوپے کے منہ سے کئی قطرے نکلے جنہیں چیونٹی مزے لے لے کر پیتی رہی‘ پھر اچانک پیوپے نے اپنے جسم کو درمیان میں سے اٹھایا۔ چیونٹی نے اشارہ سمجھ لیا‘ اس نے پیوپے کو گردن سے پکڑا اور اٹھا کر بل کی طرف چل دی۔
چند روز بعد ماہرین حیوانات نے چیونٹیوں کا بل کھولا‘ تو پیوپے کی اس طرح تواضع کی جارہی تھی جیسے وہ بہت معزز مہمان ہو۔ غالباً چیونٹی اس مٹھاس کا بدلہ چکارہی تھی جو اس نے پیوپے کے جسم سے حاصل کی تھی‘ چنانچہ چیونٹیوں کے نوزائیدہ بچے پیوپے کے سامنے پڑے تھے جنہیں وہ نہایت اطمینان سے تناول کررہا تھا۔ تین چیونٹیاں اپنے اگلے پیروں سے اس کا جسم سہلا رہی تھیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں