یہ واقع پشاور شہر کے ایک بہت بڑے تاجر جن کا کاروبار شہر کے بارونق بازار دالگراں بازار میں بہت ہی اچھی شہرت رکھنے والے خاندانی کاروباری تھے ان مشہور زمانہ‘ ہستی کا نام جناب بلور دین تھا۔ یہاں پشاور میں یا دوسرے شہروں میں بھی کاروباری طریقہ جسے (اگرائی) رقم کی وصولی کا ایک معروف طریقہ چلا آرہا ہے اور ہر ہفتے میں ایک دن (منگل) کو اُگرائی ہوا کرتی تھی اور سارے شہر کے دکانداروں سے جن کے ذمے بقایا ہوتا تھا لیکر ایک صاحب (منشی) کا یہ کام تھا۔ شہر صدر کے تمام قرضدار حضرات سے اسی طرح وصولی ہوتی تھی اور ایسا ہوتا تھا کہ کبھی کبھی مرحوم بلور دین صاحب خود کھاتہ چیک کرتے تھے کہ کس نے دئیے اور کس نے نہیں دئیے۔ اسی طرح ایک دفعہ چیکنگ کے دوران نوتھیہ جو کہ پشاور صدر میں ایک علاقہ ہے میں ایک دکاندار کے ذمے پتہ نہیں کتنے منگل گزر گئے اور وصولی نہ ہوئی تو لامحالہ موصوف نے منشی سے پوچھا کہ یہ صاحب رقم کیوں نہیں دے رہے؟ تو منشی نے کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگا۔ بہرحال موصوف نے منشی صاحب سے کہا کہ جب جاؤ منگل کو تو مجھے بھی ساتھ لے جانا۔
جب تیسرے دن منگل آیا تو جناب بلور دین صاحب نے یادداشت کرادی کہ میں بھی جاؤنگا۔ منشی صاحب نے جی صاحب کہا اور اپنے کسی دوسرے کام میں مصروف ہوگیا۔ منگل وار کو بلوردین صاحب نے منشی سے کہا کہ چلو تانگہ آنے جانے کا کرالو۔ ان دنوں شاذ ہی گاڑیاں نظر آتی تھیں منشی صاحب نے تانگہ کراکر لاکھڑا کیا اور اگرائی کیلئے روانہ ہوگئے جب منزل مقصود (نوتھیہ) پہنچے اور اس دکان کے سامنے تانگہ رکا تو اس دکاندار کی نظر جناب بلور دین صاحب پر پڑی تو رنگ فق ہوگیا اور گھبراہٹ میں عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگا مگر بلور دین صاحب ان کے ساتھ بڑے اخلاق اور اپنائیت سے ملے‘ حال احوال پوچھا اور بیٹھ گئے اس دکاندار نے کہا کہ میں ابھی آیا تاکہ آپ کیلئے چائے لیکر آؤں اور دکاندار دکان سے غائب ہوگیا اب بلورصاحب نے مذکورہ دکان کا جائزہ لینا شروع کردیا‘ دکان تو بالکل خالم خالی تھی۔ موصوف سوچ میں پڑ گئے اور خاموشی سے انتظار کرنے لگے‘ چائے والا چائے رکھ کر چلا گیا اور کچھ دیر بعد دکاندار آموجود ہوا اور دیری کیلئے معافیاں مانگنے لگا اور کچھ رقم منشی کے حوالے کی اور علیک سلیک کے بعد واپسی ہوئی دوسرے منگل کی پھر تانگہ منشی اور جناب بلور دین صاحب اس دکاندار کے پاس تھے گزشتہ منگل کی طرح آج بھی اس دکاندار نے وہی طرز عمل اپنایا اور چائے کا کہہ کر غائب ہوگیا۔ موصوف بلور دین صاحب نے ساتھ والے دکاندار سے پوچھا کہ یہ کہاں غائب ہوجاتا ہے اس دکاندار نے بتایا کہ یہ آپ کے احترام سے دکان سے غائب اور کسی سے قرض رقم لیکر آپ کو دینے کیلئے بھاگ گیا ہے تو بلور دین صاحب مرحوم نے کہا کہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی چلو آنے دو ہم اس سے مل کر بات کرلیں گے۔ جب دکاندار تشریف لایا تو منشی صاحب نے دکاندار سے کہا کہ آپ کے ذمے اتنی رقم بقایا ہے اور ہاں بلور دین صاحب نے کہا ہے کہ تم دکان پر آؤ تمہارے ساتھ کوئی کام ہے۔ دکاندار تو لرز گیا کہ نہ جانے اب کیا ہوگا خیر جب تانگہ مڑا تو ہمسایہ دکاندار نے اسے کہا ابھی جاؤ مگر وہ ڈر رہا تھا اورنہ جانا چاہتا تھا مگر ہمسایہ کے سمجھانے بجھانے پر وہ تیار ہوگیا اور اس کی قسمت کھل گئی جب دکاندار بازار دالگراں پہنچا تو بلور دین صاحب مرحوم اس کیلئے کھڑے ہوگئے اور بڑی اپنائیت کے ساتھ ملے اور مزدوروں کو کہا کہ ان کیلئے ایک ایک بوری ہر قسم کے چاول اور جو کچھ ہمارے پاس نہیں ہے وہ منڈی سے ہمارے نام لیکر آؤ کسی چیز کی کمی نہ ہو۔ بہرحال تاکہ اس کا گاہک واپس نہ جائے دکاندار صاحب تو حقیقتاً اتنے خوش ہوئے کہ اس کے دل کا حال تو اللہ ہی کو معلوم ہے۔ان کے اس طرح کے حسن سلوک کے سینکڑوں واقعات ہیں ‘آج اُسی حسن سلوک کی وجہ سے ان کا خاندان پشاور کا مشہور و معروف اور کھاتا پیتا خاندان بن گیا ہے۔ اللہ ہم سب کی مشکلیں آسان فرمائے۔ آمین۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں