میں بھی تو ماں ہوں
میری بیٹی کی عمر پندرہ سال ہے‘ بیٹا بھی پندرہ سال کا ہے۔ یہ دونوں جڑواں ہوئے تھے۔ دو بچوں کو ایک ساتھ رکھنا مشکل کام تھا‘ اس لیے بیٹی کو میری ساس نے اپنے ساتھ رکھا۔ پہلے وہ ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں اور پھر دیور کی شادی ہوگئی تو الگ گھر میں رہنے لگیں۔ اس طرح بیٹی کی پرورش الگ گھر میں ہوئی۔ مجھےبیٹے سے بے حد پیار تھا اور ہے بھی اس لیے بیٹی کا خیال کم آیا اور پھر دوسال بعد بھی بیٹی ہوگئی۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ میری ساس بیمار ہیں وہ دوسرے بیٹے کے گھر میں ہیں۔ میری بیٹی تعلیمی مصروفیات کے سبب میرے پاس ہے۔ اسے میرا بالکل احساس نہیں‘ نویں جماعت کی تیاری ایسے کرتی ہے جیسے ایم اے کررہی ہو‘ میں پریشان ہوتی ہوں کہ گھر کا کچھ کام کرے‘ چھوٹی بیٹی میرے ساتھ ہاتھ بٹاتی ہے مجھے دکھ ہوتا ہے کہ بڑی بیٹی خودغرض ہے‘ اسے فکر ہے تو اپنی دادی کی۔ میرا اور بہن بھائیوں کا خیال ہی نہیں۔ اگر بات کی جائے یا نصیحت کریں تو سخت جواب دیتی ہے۔ دادی کی فکر کرتی ہے حالانکہ میں بھی تو ماں ہوں۔ (راشدہ خضر‘ جہلم)
مشورہ: بچے ان رشتوں سے قریب ہوتے ہیں جن سے انہیں محبت ملتی ہے‘ دادی نے بچی کی پرورش کی‘ اپنے ساتھ رکھا‘ اب وہ بیمار ہیں تو ان کی فکر کرنا فطری بات ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ آپ ماں ہیں‘ اسے یقیناً آپ سے بھی محبت ہوگی لیکن آپ کی طرف سے محبت کا وہ اظہار نہیں ہے جو دوسرے بچوں کو ملا۔ آپ نے اس کے رویہ کی سختی یا خامی کو تو محسوس کرلیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ وہ ایسا کیوں کررہی ہے۔ ایک بیٹی کا ماں سے دور رہنا عام بات نہیں ہے۔ اتنے زیادہ وقت وہ آپ کی توجہ سے محروم رہی ہے اس کمی کو کچھ تو پورا کرنا چاہیے۔ آپ اس کا خیال رکھیں اگر وہ پڑھتی ہے تو اچھی بات ہے۔ اسے زیادہ سہولیات دیں۔ محبت سے سمجھائیں کہ فرصت کے وقت گھر کے کام کرنے چاہئیں۔ بہن اور بھائی کو بھی تلقین کریں کہ وہ اس سے احترام اور محبت سے پیش آئیں۔ کسی سے تعارف کروائیں تو بہت ہی اچھے اندازسے کہ اسے آپ کی نظروں میں اپنے اہم ہونے کا احساس رہے۔ اس کے ساتھ دادی کی فکر آپ بھی کیا کریں‘ اس طرح آپ اس کی فکر میں حصہ لے سکیں گی اور پھر وہ بھی آپ کے مسائل اور دیگر معاملات میں بھی دلچسپی لے گی۔ بڑوں کو اپنے بہترین رویہ کا اظہار کرنا پڑتا ہے تب ہی بچے بھی اچھے رویے اپناتے ہیں۔
کوئی ضد سی ہے
میرے والد بہت سخت مزاج ہیں۔ بچپن میں‘ میں ان سے بہت پٹتا رہا۔ والدہ بچاتی تھیں تو وہ ان پر بھی بہت غصہ کیا کرتے۔ پھر یہ ہوا کہ وہ مجھے پٹتا چھوڑ کر گھر سے چلی جایا کرتی تھیں۔ اب میں اٹھارہ سال کا ہوں۔ سگریٹ پینے لگا ہوں۔ امتحان کی فیس جمع کروا دی تھی مگر امتحان نہیں دیا۔ جن اوقات میں والد گھر پر ہوتے ہیں‘ میں گھر سے باہر رہتا ہوں‘ یوں لگتا ہے اب وہ مجھے پیٹتے پیٹتے تھک گئے ہیں۔ میں چاہتا ہوں اچھا انسان بن کر رہوں لیکن کوئی ضد سی ہے جو برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ (شاکر‘ پشاور)
مشورہ: یہ ضد جس کا ذکر کیا‘ یہ والد کے سخت رویے کے نتیجے میں ہے۔ زیادہ سختی سے بغاوت جنم لیتی ہے۔ اب آپ شعور کی منزلوں میں قدم رکھ چکے ہیں۔ والد نے بھی رویہ بدل لیا ہے یا آپ نے ان کا سامنا کرنا چھوڑ دیا جو بھی ہوا پہلے جیسے حالات نہ رہے۔ آپ اپنی زندگی سنواریں‘ اس کا سب سے زیادہ فائدہ آپ کو خود ہی ہوگا۔ جذبہ بغاوت پر قابو پانے کی مکمل اور کامیاب کوشش سے اچھے انسان بن سکتے ہیں۔ سب سے پہلے سگریٹ نوشی ترک کردیں‘ فوراً ارادہ کرکے آئندہ کبھی سگریٹ کو ہاتھ نہ لگائیں۔ ایسے لوگوں میں نہ بیٹھیں جو سگریٹ نوشی کرتے ہوں۔ پھر بروقت امتحان دیں۔ اپنے منفی جذباتی رویے کو مثبت میں بدلنے والے لوگ ہی مضبوط ہوتے ہیں۔
مریضانہ رویہ
کئی ماہ سے میرے شوہر کی حالت بہت عجیب ہوگئی ہے۔ بار بار کہتے ہیں کہ میں بہت پہنچا ہوا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کیا ہونے والا ہے۔ پوری پوری رات جاگتے ہیں بڑبڑاتے رہتے ہیں۔ آسمان کو دیکھ کر اشارے بھی کرتے ہیں۔ سسرال میں لوگوں کا خیال ہے کہ ان پر کسی جن وغیرہ کا سایہ ہوگیا ہے۔ لوگ ان سے اپنی باتیں پوچھتے ہیں یہ بڑی حد تک صحیح بتادیتے ہیں لیکن کاروبار کی طرف توجہ نہیں رہی۔ یوں لگتا ہے جیسے اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہی ختم ہوچکا ہے میرے تو ابھی بچے بھی چھوٹے ہیں۔ شوہر کی باتوں سے لگتا ہے جیسے دماغ ٹھیک نہیں رہا۔ (رخسانہ شیخ‘ سبی)
مشورہ: اگر یہ مان لیں کہ جن کا سایہ ہے تو بھی یہ بات نہیں مانی جاسکتی کہ وہ آنے والے وقت کے بارے میں کچھ بتاسکتے ہیں کیونکہ علم غیب تو جنوں کو بھی نہیں۔ محض اتفاق ہوتا ہے جو کوئی بات پوری ہوجاتی ہے ورنہ آپ کے شوہر کے رویے سے ذہنی مریض ہونے کی نشاندہی ہورہی ہے۔ خود کو پہنچا ہوا شخص سمجھنا‘ بڑے بڑے دعوے کرنا اور حقیقت میں ذمہ داریوں کو فراموش کردینا اور کاروبار کی بھی پروا نہ کرنا تو مریضانہ رویہ ہی ہے۔ آپ انہیں دماغ کے ڈاکٹر کو دکھا سکتی ہیں۔
میرے مسئلے کا بھی حل ہوگا؟
میری عمر پچیس سال ہے‘ دیکھنے میں پینتیس سال کا لگتا ہوں‘ وہ اس لیے کہ میرے سر میں بہت زیادہ سفید بال ہیں۔ ہم عمروں میں بہت عجیب سا لگتا ہے۔ جب لوگوں کے ہر مسئلےکو حل کیا جاسکتا ہے تو میرے مسئلے کا بھی حل ہوگا۔ (رشیدعلی‘ ملتان)
مشورہ: آج کل بال سفید ہوجانا کوئی اتنا بڑا نقصان نہیں ہے کہ انسان پریشان ہوجائے۔ آپ جلد کے ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کریں اور ان کی ہدایت کے مطابق دوا یا غذا پر توجہ دیں۔ اس کے علاوہ ان سے ایسے ہیئر کلر کے بارے میں بھی معلوم کرسکتے ہیں جس کے مضراثرات نہ ہوں یا بہت کم ہوں ورنہ مہندی وغیرہ بھی لگائی جاسکتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں