ہمارا ملک دنیا کے گرم ترین خطے میں واقع ہے اور ہمیں اسی سخت گرمی میں اپنے روزمرہ کے کام کرنا پڑتے ہیں مثلاً کھیتی باڑی‘ سڑکیں بنانا اور ان کی مرمت کرنا‘ لوہے اور اینٹوں کی بھٹیوں‘ ہوٹلوں کے باورچی خانوں اور دوسرے بہت سارے کام جہاں ہمیں نہ صرف گرمی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں بلکہ وہاں کام کرنے سے ہماری صحت کو ایسے بہت سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جن سے بچاجاسکتا ہے۔ اس لیے ہم سب کو اس سخت گرمی کے مضراثرات اور اس سے بچاؤ کے طریقوں کو جاننا انتہائی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم کی ساخت اس طرح بنائی ہے کہ وہ باہر کے سردو گرم موسم میں بھی اپنے اندر کا ایک مخصوص درجہ حرارت برقرار رکھتا ہے۔ جب ہمارے جسم کے اندر کا درجہ حرارت 98 فیصد سے تجاوز کرتا ہے تو دماغ دل کو حکم دیتا ہے کہ وہ ہماری جلد کی خون کی نالیوں میں زیادہ مقدار میں خون بھیجے اور دوسرے ہمارا پسینہ بنانے والے غدودوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا کام تیز کریں اور زیادہ پسینہ بنائیں اس طرح ہمارے اندر کی فالتو گرمی باہر نکل جاتی ہے اور اندرکا درجہ حرارت برقرار رہتا ہے۔ اس سارے عمل کے دوران دل کو زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور خون کی نالیوں میں خون کی گردش تیز ہوجاتی ہے اور جب جلد کا گرم خون باہر کی ٹھنڈی فضا سے ٹکراتا ہے تو ہمارے جسم کی گرمی باہر فضا میں منتقل ہوجاتی ہے۔ اگر ہمارا دماغ یہ محسوس کرے کہ جلد میں زیادہ دوران خون سے بھی ناکافی گرمی باہر نکلی ہے تو وہ ہمارے پسینہ بنانے والے غدودوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ زیادہ پسینہ بنائیں اور جب یہ پسینہ بخارات بن کر جلد پر سے فضا میں اڑتا ہے تو ہماری جلد کو ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے اور اس طرح جسم کی بہت ساری حرارت خارج ہوجاتی ہے۔
موسم گرما میں حادثات کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ سخت گرمی کی وجہ سے انسان میں چڑچڑاپن‘ بے چینی اور الجھن بڑھ جاتی ہے اور ایسے موسم میں وہ اکثر احتیاط کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اس موسم میں حادثات ہاتھوں میں پسینہ آنے‘ چکر آنے‘ چشمے کے دھندلانے‘ بے چینی اور جھنجھلاہٹ کی وجہ سے بڑھ جاتے ہیں سخت گرم موسم میں کام کرنے والے لوگ صحت کے مختلف طرح کے مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں‘ مثلاً انتہائی سخت گرمی میں کام کرنے والوں خصوصاً کھلی فضا میں کام کرنے والوں میں ہیٹ سٹروک سب سے زیادہ تشویشناک صورت حال ہوتی ہے جب انتہائی گرم موسم میں ہمارے جسم کے حرارت کو معمول پر رکھنے والے دونوں نظام معطل ہوجاتے ہیں اور پسینہ ناکافی ہوجاتا ہے تو ہمارا جسم ہلکی پھلکی تنبیہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا کہ خطرے کے لمحات آچکے ہیں۔
ہیٹ سٹروک کے مریض کی جلد خشک اور گرم ہوجاتی ہے اور وہ ذہنی طور پر گھبرایا ہوا اور بدحواس نظرآتا ہے۔ اگر مریض کو فوری طبی امداد نہ دی جائے تو اس کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔
ایسے مریض کو فوراً ہسپتال میں داخل کروا دینا چاہیے‘ لیکن ابتدائی طبی امداد کے طور پر اسے فوراً ٹھنڈی جگہ پر منتقل کردینا چاہیے‘ اس کے کپڑے پانی سے تر کردینے چاہئیں اور پنکھا تیز کرکے اسے ٹھنڈا ماحول مہیا کرنا چاہیے۔ ایسے مریض کی فوری تشخیص اور علاج ہی اسے ذہنی معذوری یا موت سے بچاؤ کا طریقہ ہے۔
پٹھوں کے اکڑاؤ کی اذیت ناک بیماری ان لوگوں میں ہوتی ہے جوسخت گرمی میں کام کرنے کے دوران بہت سارا پسینہ بہا دیتے ہیں اور پھر سادہ پانی پیتے چلے جاتے ہیں اس طرح ان کے جسم کے اندر نمکیات کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ مزید پسینہ لینے سے وہ اور زیادہ پانی پیتے ہیں اور اس طرح ان کے جسم میں نمکیات مثلاً سوڈیم اور پوٹاشیم کی کمی مزید بڑھ جاتی ہے اور ان کےپٹھے عموماً وہ پٹھے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جو کام میں زیادہ استعمال ہوتے ہیں۔ یہ اکڑاؤ کام کے دوران یا کام کے بعد گھر جاکر کسی بھی وقت ہوسکتا ہے اور مریض نمکیات والا پانی پینے سے ٹھیک ہوجاتے ہیں۔
(غشی) وہ لوگ جو گرمی برداشت کرنے کے عادی نہیں ہوتے اگر انہیں گرمی میں زیادہ دیر تک سیدھا کھڑا رکھا جائے تو وہ بیہوش ہوسکتے ہیں کیونکہ پسینہ بہنے کے مدافعتی نظام کی وجہ سے خون کا کچھ حصہ تو جلد کو چلا جاتا ہےا ور باقی کا بہت بڑا حصہ ٹانگوں کی خون کی نالیوں میں اکٹھا ہوجاتا ہے اور اس طرح دماغ کو کم خون ملتا ہے اور انسان بیہوش ہوجاتا ہے ایسے مریض کو صرف سیدھا لٹانے سے ہی اسے ہوش آجاتا ہے کیونکہ اس کے دماغ کو خون ملنا شروع ہوجاتا ہے۔
گرمی دانے: یہ شاید ہمارے ہاں کی عام بیماریوں میں سے ایک بیماری ہے جو نم آلودہ اور گرم موسم میں زیادہ ہوتی ہے۔ گرمی اور حبس کے موسم میں ہماری جلد پر سے پسینہ جلدی خشک نہیں ہوتا اور جلد زیادہ دیرتک نم آلودہ رہتی ہے اس طرح پسینہ بنانے والے غدودوں کی نالیاں بند ہوجاتی ہیں اور گرمی دانے نکل آتے ہیں۔ جب یہ زیادہ مقدار میں نکل آئیں اور ان میں انفیکشن بھی ہوجائے تو یہ درد اور جلن بھی پیدا کرسکتے ہیں‘ انسان بیزار اور چڑچڑا ہوجاتا ہے اور اس کے روزمرہ کے کام متاثر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ گرمی دانوں سے بچاؤ کیلئے بار بار نہایا جائے ا س طرح اس مصیبت سے بچاجاسکتا ہے۔
بچاؤ کے طریقے: گرمی کے مضراثرات سے بچنے کا سب سے اچھاطریقہ تو یہ ہی ہے کہ گرمی سے ہر ممکن حد تک بچا جائے لیکن ہمارے بہت سارے کام کھلی فضا میں ہی کرنے والے ہوتے ہیں جہاں اکثر سایہ دار جگہ بھی کم ہی میسر ہوتی ہے مثلاً کھیتوں میں کام کرنے والے کسان‘ سڑکیں اور مکانات بنانے والے مزدور وغیرہ وغیرہ‘ بھاری اور مشقت والے کام مسلسل نہ کیے جائیں بلکہ وقفے وقفے سے اس کام کو انجام دیا جائے کام کرنے والی جگہ سایہ دار اور ہوادار ہو تو بھی ہم بہت ساری بیماریوں سے بچ سکتے ہیںیا اگر سائے میں کام کرنا ممکن نہ ہو تو وقفے وقفے سے سائے میں آرام کرلینا چاہیے۔
کسانوں کو چاہیے کہ وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد سایہ دار درختوں کے نیچے آرام کرکے اپنا پسینہ سکھالیں۔ کام کے دوران اپنے کپڑے اتارنے سے پرہیز کریں جیسا کہ اکثر اوقات ہوتا ہے کیونکہ کپڑے ہمارے جسم کو گرمی کی شدت سے محفوظ رکھتے ہیں۔
لسی اور سکنجبین بہترین مشروب:گرمی میں کام کے دوران ایک عام آدمی 2سے 3 گیلن تک پسینہ ضائع کرتا ہے چونکہ پانی کی کمی کی وجہ سے بے شمار بیماریاں لاحق ہوسکتی ہیں‘ گرم علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے پسینے میں اکثر کم ہی نمکیات ضائع ہوتے ہیں پاکستانی خوراک میں اتنا نمک شامل ہوتا ہے کہ ہمیں اور زیادہ کی ضرورت نہیں رہتی لیکن اگر کسی وجہ سے زیادہ نمکیات خارج ہوجائیں تو فوراً نمکول کا پانی استعمال کرنا چاہیے گرمی میں کھلی فضا میں کام کرنے والوں کیلئے ’’لسی‘‘ اور ’’سکنجبین‘‘ بہترین مشروب ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں