ماسٹر صاحب کا گمان تھا کہ طرفین راقم سطور سے مانوس ہیں‘ اس لیے وہ پہلے پھلت اس کے بعد غازی آباد اور پھر دہلی مجھے تلاش کرتے ہوئے پہنچے اور بولے کہ گاؤں میں لڑائی اس وجہ سے تلی ہوئی ہے کہ اس بار سالانہ جلسے میں آپ نہ آئے تو گولیاں چلیں گی اور وہ چار لوگ ضرور مریں گے اور ان کے مرنے کے ذمہ دار آپ ہوں گے۔ اس حقیر نے اس خیال سے کہ اپنی بساط بھر مسلمانوں کے انتشار میں صلح کرانا دینی ذمہ داری ہے اپنے پہلے سے طے شدہ پروگرام کو رد کرکے جلسے میں حاضری کا وعدہ کرلیا۔ گاؤں میں پردھانی کی سیاست کی وجہ سے دو دھڑے بنے ہوئے تھے اور اپنی داخلی سیاست کو دونوں گروپ مدرسے کی سرپرستی کے نام پر جیت ہار کامسئلہ بنائے ہوئے تھے۔ گویا مدرسہ اس کا اکھاڑہ تھا۔ یہ حقیر صبح جلدی حاضر ہوا ایک گروپ کو جو نسبتاً اس حقیر سے ذرا قریب تھا اور موجودہ نظام سے برہم تھا بلایا اور سمجھایا۔ الحمدللہ وہ لوگ اس بات پر راضی ہوگئے ہم لوگ اللہ کیلئے جلسے میں شریک بھی ہوں گے سرپرست کوئی بھی رہے مدرسے کی خدمت بھی پہلے سے زیادہ کریں گے۔ دوسرا گروپ کسی طرح قریب نہیں لگا اور بار بار کوشش پر بھی راضی نہیں ہوا‘ ہمارے ایک رفیق بھولے بھالے حافظ صاحب جو اس صلح میں بہت دلچسپی لے رہے تھے مایوس ہوکر بولے کہ ہم مسلمانوںکا حال تو کتوں کا سا ہوگیا خصوصی دینی طبقے کا‘ میں نے ان سے جب وجہ معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ ایک بھینسا مرا پڑا ہوا اور ایک کتا اسے نوچ کر کھارہا ہو‘ اس کتے سے سالوں میں بھی وہ بھینسا کھایا نہ جاسکے گا بلکہ وہ گل سڑ جائے گا اس کے باوجود اگر دوسرا کتا آکر وہاں کھانے لگے تو یہ کتا اپنا کھایا بھول جائے گا اور دوسرے کتے سے لڑے گا۔ حافظ صاحب سے اس حقیر نے پوچھا پھر ہمیں کس کی طرح ہونا چاہیے؟ حافظ صاحب بولے بکریوں کی طرح‘ پوچھا وہ کیوں؟ بولے: بکریوں کے بڑے ریوڑ میں تھوڑا سا چارہ ڈال دیجئے‘ نہ لڑیں گی نہ کسی کو بھگائیں گی‘ ایک ایک پتہ مل جل کر کھاجائیں گی بات بڑی حکمت کی تھی سن کر یہ فقیر رب کریم کے احسان عظیم کے شکر سے بول اٹھا۔ (الاعراف 43) اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم ہدایت نہ پاسکتے تھے اگر وہ ہدایت نہ دیتا۔
بغیر طلب اور بلا استحقاق کیسا پیارا دین اسلام رب کریم نے ہمیں دیا جس کا ایک ایک حکم کیسا حکیمانہ ہے‘ کتے کے پالنے کو حرام قرار دیا اور حکم میں منجملہ سینکڑوں مصلحتوں اور حکمتوں کے بڑی حکمت یہ ہے کہ کتے کے ساتھ رہنے کی وجہ سے اپنی قوم سے کینہ نہ پیدا ہوجائے اور بکری پالنا سنت قرار دیا اس میں منجملہ حکمتوں کے ایک بڑی حکمت یہ ہے کہ مروت اور محبت کے ساتھ مل جل کر کھانے کی صفت ان کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلمان میں پیدا ہوجائے اس مروت اور محبت کی نعمت کو قرآن حکیم نے کس انداز میں ذکر کیا ہے:۔ (آل عمران 103) ’’اور اپنے اوپر یاد کرو احسان اللہ کا‘ جب تم آپس میں دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کی اور تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچایا۔‘‘
مگر افسوس ہے کہ کلمہ توحید جو کلمہ وحدت بھی ہے کے ماننے والے ہم اپنے اپنے ذاتی مفادات کے داؤ پر اس وحدت اور مروت کی نعمت کو پارہ پارہ کردیتے ہیں اس لیے کہ ہمارے دل بغض و کینہ کی آما جگاہ ہیں اور ہمارا حال یہ ہے کہ کتوں کی طرح اپنے دکھ سے اتنے دکھی نہیں جتنا دوسروں کے سکھ اور خوشی سے ہمیں تکلیف ہے حالانکہ اسلام نے ایسے تمام رذائل سے حد درجہ پرہیز کا حکم دیا تھا جو آپس میں انتشار و افتراق پیدا کرنے والے ہیں۔ طبیب حاذق نبی رحمتﷺ کا ارشاد مبارک ہے:۔ تم بدگمانی سے بچو‘ اس لیے کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے‘ کسی کی جاسوسی مت کرو‘ کسی کے پیچھے مت پڑو اور حسد مت کرو اور بغض مت رکھو اور اللہ کے بندو! بھائی بھائی بن جاؤ۔
کاش! ہم دین وحدت کے مزاج کو سمجھ کر امت کی شیرازہ بندی کی اہمیت کو سمجھتے!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں