(سیدواجدحسین بخاری)
سال 1960 کی بات ہے ہمارا ایک رشتہ دار تھا اس کو اعلیٰ نسل کے گھوڑے پالنے کا بہت شوق تھا۔ اس وقت بہت قیمتی گھوڑے رکھتا تھا اس کے پاس ایک ’’ابلخ‘‘ گھوڑا تھا جس کی پشت بہت چوڑی تھی جس پر ایک چھوٹی چارپائی آسانی سے رکھی جاسکتی تھی جب وہ اس پر سواری کرتا تھا تو دیکھنے والے دانتوں میں انگلیاںلے لیتے تھے کیونکہ ایسا چوڑا اور خوبصورت گھوڑا کسی کے پاس نہیں تھا۔ اس وقت بہاول وکٹوریہ ہسپتال میں دور دراز فوتیدگی کی صورت میں میت کو لے جانے کا کوئی خاطر خواہ بندوبست نہ تھا اس شخص کی جانب سے یہ اعلان تھا کہ جس کے پاس دور دراز میت لے جانے کا بندوبست نہ ہو مجھ سے رابطہ کرے۔ اس شخص نے گھوڑے کو ’’سدھایا‘ ہوا تھا جس دن میت لے جانی ہوتی تھی وہ شخص صبح صبح اٹھ کر نہاتا تھا خود خوشبو لگاتا تھا اور گھوڑے کے کان میں کہتا تھا کہ آج میت لے جانی ہے اور خاص انداز میں تھپکی دیتا تھا اور گھوڑے کو بھی خوشبو لگاتا تھا اور روئی پر خوشبو لگا کر گھوڑے کے کان میں لگا دیتا تھا۔ گھوڑا غمگین ہوجاتا تھا اور بالکل خاموش ہوجاتا تھا اور ایسے محسوس ہوتا تھا کہ گھوڑے کو بھی علم ہوجاتا تھا کہ میں نے میت لے کر جانی ہے اور بڑے ادب و احترام سے آرام سے چلتا تھا۔ میں نے اس رشتہ دار سے پوچھا کہ کیا یہ علم ہوجاتا ہے کہ میت نیک ہے یا نہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ ہاں! جو میت نیک ہوتی تھی تو اس کو لے جاتے ہوئے سفر کٹنےکا احساس بھی نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی تھکن ہوتی تھی اور اگر میت گناہ گار ہو تو سفر بہت مشکل سے کٹتا تھا۔ گھوڑا بہت تھک جاتا تھا اور دو دن کچھ نہیں کھاتا تھا اور میں خود تھکن سے چور ہوجاتا تھا اللہ ہر کسی کا خاتمہ ایمان پر کرے۔ آمین۔
رسم حنا (مہندی)
(نعیم جاوید معرفتی)
سن 1980ء کی دہائی میں فلم انڈسٹری کی ایک معروف ہدایت کار کی فلم سینما گھروں میں نمائش کیلئے پیش ہوئی فلم بینوں بالخصوص پاکستانی عورتوں میں یہ فلم اتنی زیادہ مقبول ہوئی کہ اس کے اثرات آج بھی ہمارے معاشرے میں ہونے والی شادیوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس فلم سے پہلے رسم حنا (مہندی)کے نام پر ہندوانہ رسم شادیوں میں ہوا کرتی تھی مگر صرف عورتوں کی حد تک۔ عورتیں اپنے ہاتھوں پر مہندی لگاتیں اور مخصوص گیت گا کر خوشی کا اظہار کرتیں یعنی یہ رسم صرف عورتوں تک محدود ہوتی تھی۔ لڑکی اور لڑکے والے اپنے اپنے گھروں میں یہ فضول رسم کیا کرتے تھے۔ مگر اس فلم کے بعد اس رسم کو ایسا عروج آیا کہ یہ رسم گھروں سے نکل کر گلیوں اور بازاروں میں سرعام ناچ لگا کر ہونے لگی جو تاحال جاری ہے۔ اسی دور میں ایک معروف گلوکارہ نے ’’مہندی‘‘ پر مخصوص گانے گائے جسے اس وقت کے میڈیا نے بہت زیادہ اہمیت دی اور بار بار ٹیلی کاسٹ کیا۔ ان گانوں میں ایک مصرہ بہت مقبول ہوا ’’مہندی تاں سجدی جے نچے منڈے دی ماں‘‘ یعنی رسم حنا اس وقت مکمل ہوگی جب لڑکے یعنی دولہا کی ماں ڈانس کرکے سب کو دکھائے گی یا سب کے سامنے ناچے گی!!!(الامان والحفیظ)
اب آپ خود اندازہ لگالیں کہ جو رسم قوم کی ماؤں کو سرعام گلیوں اور بازاروں میں ناچنے پر مجبور کردے ایک اسلامی معاشرے کیلئے اس سےزیادہ شرم کی بات کیا ہوگی؟
مڈل کلاس یعنی متوسط طبقے اور ایلیٹ کلاس میں یہ مکروہ رسم اس حد تک سرایت کرچکی ہے کہ اس رسم کیلئے باقاعدہ طور پر دعوت شادی کے کارڈوں کے علاوہ الگ سے کارڈ چھپوائے جاتے ہیں اور ان کارڈوں پر لڑکیوں کے نام اور موبائل فون نمبر بڑے اہتمام سے چھپوائے جاتے ہیں‘ محلے کے تمام آوارہ لڑکے اس دعوت پر بلا کے یا بن بلائے مدعو ہوتے ہیں۔ ساری رات چلنے والی اس رسم میں پہلے لڑکے والی لڑکی والوں کے گھر ’’مہندی‘‘ لے کر جاتے ہیں اور بعد میں لڑکی والے لڑکے والوں کے گھر جاتے ہیں۔ گلیوں اور بازاروں میں ایک طوفان بدتمیزی بربپا کیا جاتا ہے۔ایسی شادیوں کا انجام بعد میں گھریلو ناچاقی اور طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔سرور کائنات ﷺ کا فرمان ہے کہ اگر کوئی مومن معاشرے میں برائی دیکھے تو اسے ہاتھ سے روکے اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو زبان سے
روکے اور اگر زبان سے نہیں کہہ سکتا تو اسے دل میں برا جانے‘ دل میں برا جاننا ایمان کی سب سے کم تر صفت ہے۔ کیا ہم اپنے گھروں میں ’’مہندی‘‘ جیسی رسم کوختم نہیں کرسکتےہیں؟ کیا ہم میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم اس رسم کی آڑ میں بیہودگی اور آوارگی کو روک سکیں۔ کم از کم ہر مرد اپنے گھر پر تو قادر ہوتا ہی ہے ہم اس رسم کی بے حیائی کو روک کر آقا دوعالم ﷺ کو خوش کرسکتے ہیں اور یہ کام ہمارے اختیار میں بھی ہے۔حضرت حکیم صاحب اپنے درسوں میں اکثر فرماتے ہیں کہ ’’شادی‘‘ کے صرف تین نقطے ختم کرکے اسے ’’سادی‘‘ بنالو اس سےاللہ تعالیٰ بھی خوش اس کا رسول ﷺ بھی خوش اور شادی کے بعد برکتیں اور رحمتیں بھی مفت میں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں