(ڈاکٹر ایم خان بابر‘ بہاولپور)
راقم کو ایک سفر کے دوران جن چند چشم کشا اور عبرت انگیز واقعات سے واسطہ پڑا ان میں سے چند پیش خدمت ہیں… جون 84ء میں میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں بہاولپور سے لورالائی گیا۔ میرے ساتھ میرے کچھ دوست‘ کچھ کم پڑھے لکھے اور بہت غریب بھی تھے‘ گئے۔ لور الائی جانے کیلئے رات ڈھائی بجے کے قریب گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کی بس میں روانہ ہوئے صبح سورج نکلنے کے وقت‘ ہماری بس جونہی اس مقام پر پہنچی کہ جہاں ایک پہاڑی موڑ پہ چشمے کے قریب ایک چھپڑ ہوٹل تھا رک گئی… ڈرائیور کنڈیکٹر نے اپنی پوری کوشش کی مگر پھر اعلان کردیا کہ بس کا گئیر خراب ہوگیا ہے اور آگے چڑھائی پر چڑھنا مشکل اور خطرناک ہے… کنڈیکٹر نے سب مسافروں کو کرائے کی بقایا رقم ادا کی اور کہا کہ اب آپ لوگ پیچھے سے آنے والی دوسری بس یا پھر ٹرکوں میں بیٹھ کر آگے جاسکتے ہیں…
دوسری بس کے آنے میں دیر تھی لہٰذا ہم ناشتے کا اہتمام کرنے میں لگ گئے۔ چائے کیلئے ہوٹل سے رجوع کیا تو موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہوٹل والے نے دو روپے فی کپ وصول کرنے کا اعلان کردیا جبکہ اس زمانے میں چائے کا ایک کپ آٹھ آنے کا تھا… ہم مسافروں میں اکثر حضرات اس مہنگائی کے متحمل نہیں تھے لہٰذا ایک بھائی کی روح افزاء کی بوتل سے شربت کی بالٹی بنا کر خشک روٹی کے ساتھ ناشتہ کرلیا۔ پھر جب دوسری بس آئی تو وہ مسافروں سے بھری ہوئی تھی ہماری بس کے کچھ مسافر تو اس کی چھت پر بیٹھ کے اور کچھ اندر کھڑے ہوکر اور کچھ دروازوں سے لٹک کر چلے گئے… لیکن میرے ساتھیوں کو اس قدر طویل سفر گوارا نہ تھا لہٰذا ہم اترگئے… اب پیچھے سے آنے والے ٹرکوں کے انتظار میں تھے‘ سورۂ یٰسین کا ورد کررہے تھے کہ اچانک شور بلند ہوا… آگ لگ گئی…! آگ لگ گئی…! دیکھا تو ہوٹل والے کا چھپر جل رہا تھا… غالباً تندور سے کوئی چنگاری اڑی اور چھپڑ نے آگ پکڑلی… اب ہم سب ساتھی اٹھے اور بھاگ بھاگ کر چشمے سے پانی بھر بھر کر لائے اور آگ بجھا دی… اب ہوٹل والا ہمارے ہاتھ پکڑ پکڑ کر کھینچنے لگا کہ چائے پئیں۔ ایک پیسہ نہیں لوں گا مگر ہم نے شکریے کے ساتھ اس کی پیشکش لوٹا دی… اتنے میں پیچھے سے ایک ٹرک آگیا جو خالی تھا اور لورالائی جارہا تھا۔ ڈرائیور سے بات ہوئی تو اس نے ہماری بے بسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اتنے کرائے کا مطالبہ کیا جو بس کے کرائے سے بھی دوگنا تھا… مجبوراً بیٹھ گئے اور وہ ٹرک چلا گیا۔ پھر کچھ دیر بعد ایک اور ٹرک آیا۔ اس سے بھی ہم کو لے جانے کی بات ہوئی تو اس نے بھی پہلے ٹرک والے جتنا کرائے کا مطالبہ کیا‘ لہٰذا بات نہ بنی اور وہ ٹرک بھی روانہ ہوا لیکن ابھی چند قدم ہی گیا ہوگا کہ واپس لوٹ آیا اور ڈرائیور نے اتر کر ہم سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ لورالائی جارہے ہیں؟ جواب دیا ہاں! اس نے کہا وہ میرا شہر ہے آپ لوگ میرے مہمان ہو میں آپ سے ایک پیسہ بھی نہیں لوں گا…! یوں اس نیک دل ڈرائیور کے ہمراہ آگے روانہ ہوئے… اورجونہی اکھنی سے کچھ آگے پہنچے تو دیکھا کہ وہی پہلا ٹرک جس کے ڈرائیور نے بہت زیادہ کرایہ طلب کیا تھا خراب ہوکر سڑک کی ایک جانب کھڑا تھا… لورالائی میں ہمارا قیام ایک ایسی مسجد میں ہوا جو تھانے اور تحصیل آفس کے قریب تھا ہم نے مسجد میں قیام اس لیے کیا کہ ہمارے پاس ہوٹل کے پیسے نہ تھے اور قریب ہی بازار میں ڈاکٹر نصیرجوگیزئی کا کلینک بھی تھا… لورالائی کے لوگ بہت سادہ اور نیک دل تھے‘ اذان ہوتے ہی دکانیں کھلی چھوڑ کر مسجد میں چلے جاتے… دوران قیام ہم نے محسوس کیا کہ مسجد کے امام ہمارے قیام اور کام سے قدرے ناخوش ہیں۔ لہٰذا ایک دن ہم نے کوچ کرکے کسی دوسری مسجد میں قیام کرنے کا قصد کیا۔ اسی رات تقریباً دو بجے کسی کے رونے اور کراہنے سے میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کہ امام صاحب نے اپنے بارہ سالہ بیٹے کاہاتھ پکڑا ہوا ہے اور پیالے میں سے پانی لیکر کچھ پڑھ پڑھ کر بچے کے ہاتھ پر چھینٹے مار رہے ہیں لیکن لڑکا ہے کہ مسلسل تڑپے اور روئے چلا جارہا ہے…
معلوم ہوا کہ بچھو نے کاٹ لیا ہے۔ اس علاقے میں بڑے بڑے کالے بچھوعام تھے۔ تبھی میں نے کہا کہ اگر کہیں سے پیری ایکٹن دوا مل جاتی تو بچے کو فائدہ ہوجاتا۔ اسی محلے کے رہائشی ایک صاحب جو اس وقت مسجد میں تھے بولے میرے پاس گھر میں یہ دوا رکھی ہے۔ پھر وہ بھاگ کر لے بھی آئے۔ میں نے لڑکے کو ایک گولی فوراً کھلادی اور تقریباً دس منٹ بعد لڑکا پرسکون ہوگیا اور کہنے لگا کہ اب صرف ہلکی ہلکی سی ٹیس محسوس ہورہی ہے ایک گولی اور کھلانے کے بعد لڑکا سوگیا اور ہم سب بھی سوگئے…صبح ناشتے کے بعد ہم مسجد سے جانے لگے تو امام صاحب نے منت سماجت اور پھر ضد کرکے ہمیں اسی مسجد میں ہی قیام پر مجبور کردیا۔
بہاولپور کا قبرستان اور عورت کی لاش
(سید شہباز حسین بخاری)
ایک گورکن نے قبر کھودی تو ساتھ والی دیوار گرگئی دیکھا تو ایک عورت سورہی ہے اور ایک پھول اس کے سینے پر رکھاہوا ہے اور اس سے پانی نکل رہا ہے اور وہ پی رہی ہے۔ اس نے فوراً قبربند کردی اور تلاش میں رہا کہ یہ قبر کس کی ہے؟ آخر کار محرم کے مہینے میں ایک بندہ آیا جس کی عمر پینتالیس سال کی تھی وہ آکر اس قبر پر کھڑا ہوگیا تو اس نے پوچھا یہ کس کی قبر ہے تو اس نے غصے سے کہا تم کون ہوتے ہو یہ پوچھنے والے؟ پھر اس گورکن نے معذرت کی اور ساری بات بتادی۔ اس پر اس آدمی نے کہا میں پیدائشی نامرد تھا میرے گھر والوں نے میری شادی کردی میں نے پہلی رات اپنی بیوی کو کہا کہ میں پیدائشی نامرد ہوں ہم لڑائی کرتے ہیں پھر سب اکٹھے ہوں گے میں تمہیں طلاق دے دوں گا اس پر اس لڑکی نے کہا یہ فیصلہ میرے اللہ پاک نے کہا ہے تم اس پر راضی نہیں ہو؟ ہم پھر دوست بن کر اکٹھے رہے جب وہ مری تو اس کے بعد میں آدھا رہ گیا وہ تو مرکر اپنا مقام پاگئی۔۔۔ میرا کیا ہوگا۔۔۔؟
صرف ایک لفظ نے کنگلا کردیا
(اصغر‘ کوٹ ادو)
ایک بہت بڑا مالدار تھا۔ احمدپور شرقیہ کا رہنے والا تھا۔ تاجر بھی تھا۔ ایک دفعہ ایک نوکر سے غصے ہوگیا اور بے قصور اس کو مارا اور کہا کہ تیرے پیٹ کے اندر تو میرے ٹکڑے ہیں اور گالیاں بھی دیں۔
مولانا عبداللہ صاحب نے یہ الفاظ کانوں سے سنے اور انہوں نے ہی بتایا۔ بس اللہ پاک کو اس تاجر کے یہ الفاظ ناپسند آئے قدرت نے وہ ساری چیزیں‘ ریل پیل کاروبار‘ زمینیں سب کچھ چھین لی اور اسے کنگلا کردیا۔ اب وہی شخص ہے جو کہ بھیک مانگ کر گزارا کرتا ہے۔
حدیث کا مفہوم ہے پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں پر غنیمت سمجھو۔1۔ صحت کو بیماری سے پہلے۔ 2۔ جوانی کو بڑھاپے سے پہلے۔ 3۔ غناکو فکر سے پہلے۔ 4۔ فراغت کو مصروفیت سے پہلے۔ 5۔ زندگی کو موت سے پہلے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں