عبقری کے شمارہ جون 2008ءمیں ”شوہر کا خانہ خراب کیجئے“ نظر سے گزرا۔ جدت اور حقیقت کے لحاظ سے مضمون نگار نے کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔ ظاہر ہے جب شوہروں کا خانہ اس حد تک خراب ہو جائے گا کہ وہ خود کوپاگل محسو س کرنے لگیں تو انہیں بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ جوابی کارروائی کے طور پر بیوی کا خانہ خراب کر دیں اور اس نتیجہ میں متوازن فضا پیدا ہو سکے۔ زیر نظر مضمون اسی خیال کے تحت پیش کر رہا ہوں۔
یاد رکھئے !بیوی کو آپ کے لیٹ آنے سے بڑی چڑ ہوتی ہے۔ اس لئے رات کو ہمیشہ دیر سے واپس آیئے۔ دفتری اوقات کے بعد جو وقت بچے اسے ہمیشہ دوستوں کے ساتھ سیرو تفریح، اور ہوٹل وغیرہ میں ضائع کیجئے۔ گھر جا کر بیوی کے ساتھ مغز مارنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ دس بجے سے پہلے جانا تو بیوقوفی ہے البتہ بارہ بجے کے بعد آپ بخوبی گھر تشریف لے جا سکتے ہیں۔ اگر بدنصیب بیوی آپ کے انتظار میں اس وقت بھی جاگ رہی ہو تو نادم ہونے کی بالکل ضرورت نہیں۔ وہ ناک بھوں چڑھائے اور دیر سے آنے کی شکایت کرے، تو میز پر زور زور سے مکے مار کر یوں مخاطب کیجئے۔” دیر سے آیا ہوں تو کیا غضب ہو گیا۔ اس گھر میں میرے سکون کے لئے رکھا ہی کیا ہے۔ خون پسینہ ایک کر کے کماتا میں ہوں اور تمہیں تو عیش کرنے کے سوا اور کوئی کام ہی نہیں۔ ہماری بلی اور ہمیں کو میائوں.... سارے دن کے تھکے ہوئے ذہن کیلئے اگر تفریح کے چند لمحے بھی نہ گزاروں تو دماغ خراب ہو جائے۔ کون سا جہیز میں کوٹھی کار لے آئی تھیں کہ مجھے محنت نہ کرنی پڑتی۔ قسمت پھوٹ گئی اپنی تو....!
بیوی کھانا لاکر رکھے وہ ٹھنڈا یا ناپسندیدہ ہو یا آپ باہر دوستوں کے ساتھ پیٹ پوجا کر چکے ہوں تو بیوی کو یوں نوازیئے:”یہ کھانا پکایا ہے یا کونے والے ہوٹل سے منگوایا ہے؟ تین سو روپے ماہوار تنخواہ پانے والا کوئی شریف انسان بھی اسے نہیں کھا سکتا؟ ہرگز نہیں.... اگر زیادہ متاثر کرنا ہو تو بے شک پلیٹیں اٹھا کر زمین پر دے ماریئے اور کپڑے بدلے بغیر زور زور سے پائوں پٹختے ہوئے اپنے کمرے میں تشریف لے جایئے۔
فرض کیجئے بھوک لگی ہے اور بیوی بے چاری نے آپ کے انتظار میں ابھی تک کھانا نہیں کھایا تو اس سے ہرگز مت کہئے کہ آئو بیگم !کھانا کھا لو.... اور اگر وہ خود ہی کھانا شروع کر دے تو ایک قہر آلود نظر ڈالئے اور یوں فرمایئے:”تم بھی عجیب عورت ہو، تمہاری وجہ سے روز آفس دیر سے پہنچتا ہوں اور ڈانٹ کھانا پڑتی ہے۔ کسی دن نوکری سے جواب مل گیا تو سر پر ہاتھ رکھ کر رونا.... وغیرہ وغیرہ....“
اگر آپ ان سعادت مند شوہروں میں سے ہیں جو ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ساری تنخواہ بیوی کے ہاتھ پر لاکر رکھ دیتے ہیں تو سخت غلطی پر ہیں۔ بیوی پر اعتماد کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ ضروری خرچ کے لئے پیسے نوکر کو دیجئے اور ساتھ ہی اسے ہدایت کر دیجئے کہ بیوی کی مکمل طور پر جاسوسی کرے اور رات کو تمام ”رپورٹ“ صاحب تک پہنچا دے کہ سارا دن بیگم نے کیا کیا معرکے سر کئے۔ کتنے مہمان آئے، الگ الگ مرد اور عورتوں کی تعداد کیا تھی، بازار گئیں تو کیا کیا خریدا۔ کس کس سے لڑائی مول لی۔ وغیرہ۔
دفتر میں کوئی لیڈی ٹائپیسٹ ہو تو بیوی کے سامنے اسکی تعریف کیجئے۔ بیوی سے چھپانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔ بیوی کے سامنے دوسری عورتوں کی جی بھر کر تعریف کیجئے (جھوٹی ہی سہی) عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے مگر شوہر کی توجہ یا جھکائو کسی دوسری طرف ہو تو یہ اس کی قوت برداشت سے باہر ہے۔بیگم صاحبہ بازار سے کوئی پسندیدہ چیز خرید کر لائیں تو اسکی ہرگز تعریف نہ کیجئے۔ ہمیشہ اسے فضول خرچ، بے پرواہ اور پھوہڑ کا خطاب دیجئے۔ اگر بیوی بھول کر کسی کپڑے یا زیور کی فرمائش کر بیٹھے۔ تو ہرگز پوری نہ کیجئے بلکہ اسے یہ احساس دلایئے کہ وہ کسی وزیر یا سفیر کی بیگم نہیں ہے۔ معمولی آدمی کی بیوی ہے۔ اپنی اصل تنخواہ کا راز بیوی سے چھپایئے۔ اگر آپ بتا دیں گے تو اس میں سراسر آپ کا نقصان ہے۔ اگر وہ سال یا چھ ماہ بعد کسی دعو ت یا شادی پر جانے کیلئے تیار ہو رہی ہے تو اسے بنا سنورا دیکھ کر ہرگز اس کی تعریف نہ کیجئے ورنہ اس کا دماغ عرش تک پہنچ جائے گا اور آپ کا مشن ناکام رہے گا۔ صرف اتناکہئے۔ خوب بہت خوب، اگر کچھ فرق باقی ہے تو کہیں سے قرض منگوا لو اور بازار کا ایک چکر اور لگا لو تاکہ یہ حسن جہاں سوز اور بھی چمک سکے۔“ اگر آپ بیوی سے وعدہ کر کے جائیں تو کبھی وقت پر واپس نہ آئیں۔ انتظار کی کوفت بھی مزیدار ہوتی ہے۔ بیوی کی بات کم سنئے اور خود زیادہ بولئے۔ اگر اس کی زبان قینچی کی طرح چلنے لگے تو اس سے متاثر ہوئے بغیر زور دار آواز سے اسے یقین دلایئے کہ اس میں کوئی کشش نہیں اور آپ اس کی کوئی بات سننا پسند نہیں کرتے۔
بالفرض اگر آپ ساری تنخواہ بیوی کو دینے کے حق میں ہیں تو ہر ماہ کے آخر میں پائی پائی کا حساب لیجئے۔ اگر کہیں بھول چوک ہو جائے تو اتنی اونچی آواز میں نصیحت کیجئے کہ محلے والے بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ یقین کیجئے ایسا کرنے سے آپ کے ماں باپ، بہن بھائی سب کے چہرے خوشی سے پھول کر کپا ہو جائیں گے۔ بچوں پر بھی دھول دھپے کی مشق کر سکتے ہیں۔ اپنے کمرے کو قطعاً صاف نہ کیجئے، یہ آپ کا کام نہیں۔ کپڑے ہمیشہ پلنگ پر پھینکئے۔ جوتے کمرے کے عین درمیان بڑے اچھے نظر آتے ہیں۔ شیو کا سامان رائیٹنگ ٹیبل پر اور سیاہی کی دوات ڈائیننگ ٹیبل پر رکھئے۔ کتابوں کے انبار ہمیشہ بستر پر چھوڑیئے۔ گیلا تولیہ ہمیشہ غسل خانے میںپھینک دیں۔ سگریٹوں کی راکھ اپنے کمرے کے علاوہ ڈرائنگ روم میں بھی جابجا دکھائی دے۔ اتوار کو تمام دن دوستوں کے ساتھ چائے کا چکر چلایئے۔ ہر بات کہہ کر ہر کام کر کے، ہر چیز رکھ کے ہمیشہ بھول جایئے اور جب وقت پر کچھ نہ ملے تو چیخ چیخ کر سارا گھر سر پر اٹھا لیجئے۔ یقین کیجئے کہ آپ کی بیوی کا ذہنی سکون درہم برہم ہو جائیگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں