ذیابیطس کیا ہے
ذیابیطس کے متعلق زیادہ سے زیادہ علم و آگہی انتہائی ضروری اور لازمی ہے۔ ذیابیطس کے متعلق مریض اور اس خاندان کے افراد کی معلومات پر دنیا بھر میں توجہ دی جارہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کو پوری دنیا میں زیادہ بہتر طور پر تسلیم کیا جارہا ہے اور اسے ایک بنیادی ستون کی حیثیت بھی حاصل ہو گئی ہے تاہم یہ بات افسوس کے ساتھ کہنی پڑتی ہے کہ اگرچہ یہ نظریہ 1875ءمیں فرانسیسی ڈاکٹر بوکارڈ نے شروع کیا تھا پھر 1919ءمیں E.P Jhonson نے اس کو باضابطہ طور پر رواج بھی دیا تھا تاہم ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود یہ ابھی بھی اپنے ابتدائی مرحلوں میں ہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر زور و شور سے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جائے تاکہدنیا بھر میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اس مرض اور اس کی پیچیدگیوں سے پیدا ہونے والے خطرناک اور مہلک امراض پر قابو پایا جا سکے۔
ذیابیطس ہے کیا اور کیوں ہوتی ہے؟انسانی جسم میں لبلبہ کے اندر بیٹا خلیے (B.cells )قدرتی طور پر انسولین پیدا کرتے ہیں جو خون کے ذرات میں شامل ہو کر خون میں موجود گلوکوز کو جسم میں انجذاب کی صلاحیت عطا کرتی ہے جس سے جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے جب کسی وجہ سے یہ بیٹا سیلز اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو خون میں موجود گلوکوز انسولین کی کمی کی وجہ سے جسم میں جذب نہیں ہو پاتا اور پیشاب کے ذریعے باہر آجاتا ہے۔ جسم کو توانائی اور غذا حاصل نہیں ہو پاتی اور وہ لاغر کمزور ہو جاتا ہے۔
اسی لیے جب ایک بار کسی کو یہ مرض لاحق ہو جاتا ہے تو اس کی زندگی کی آخری سانسوں تک برقرار رہتا ہے۔ ہاں مناسب ادویات، پرہیز، احتیاط اور وزش کے ذریعے جسم میں مقدارِ شکر کی سطح اور مریض کی عمومی صحت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے نیز ذیابیطس سے متعلقہ امراض مثلاً خرابی گردہ، بلند فشارِ خون، انفیکشن، اعصابی بیماریاں، امراض شریانِ قلب و حملہ قلب دوران خون کی خرابیاں، اعصابی بیماریاں اور امراض چشم Retinopathy) (وغیرہ سے جو تمام کے تمام مہلک اور خوفناک امراض کے زمرہ میں آتے ہیں،بچا جا سکتا ہے۔یہی وہ امور ہیں جہاں ذیابیطس سے متعلق زیادہ سے زیادہ علم و آگہی اور معلومات مریض اور اس کے متعلقہ افراد کیلئے انتہائی مفید اور کار آمد رہتی ہیں تاکہ ذیابیطس میں مبتلا فرد ایک نارمل اور خوشگوار زندگی گزار سکے۔ ذیابیطس سے متعلق معلومات کی اہمیت کو مندرجہ ذیل نکات کی صورت میںاجاگر کیا جا سکتا ہے۔
مریض کی عمومی صحت پر خوشگوار اثرات
ذیابیطس میں مبتلا افراد کے خون میں مقدار شکر کے گھٹتے بڑھتے رہنے کے سبب روزمرہ کے معمولات میں تبدیلی نیز غذا اور دوا میں توازن برقرار رکھنے کیلئے دوا کی خوراک میں تبدیلی و دیگر معاملات میں ترتیب و تنسیخ ناگزیر ہوتی ہے۔اس حقیقت سے آنکھیں بند کر لینے کے سبب کنٹرول کافی خراب ہو جاتا ہے۔ ذیابیطس کی تشخیص کے بعد مریض کو صدمہ، نفسیاتی الجھنیں، افسردگی، ڈپریشن اپنی ذات اور صلاحیتوں پر عدم اعتماد وغیرہ جیسی مزید خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ ذیابیطس کے بارے میں علم و آگہی مریض کو ان کیفیات پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔ علاج معالجہ غذا اور دوا کی خوراک کے ردوبدل میں اعانت کرتی ہے۔ مریض اپنا خود نگہداشتی عمل بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے اس طرح وہ اپنی شکر کا کنٹرول بہتر بنا کر اپنی عمومی صحت پر مثبت اثرات مرتب کر پاتا ہے۔
شوگر کا بہتر کنٹرول
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں اور ثابت شدہ ہے کہ جن ذیابیطس میں مبتلا افراد نے اپنے مرض کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کیں اور ان پر عمل بھی کیا تو انہوں نے تھوڑے ہی دنوں میں شوگر کا کنٹرول بہتر بنا لیا اور مدت العمر خوشگوار زندگی گزاری۔ذیابیطس میں مبتلا افراد میں شوگر کا بہترین کنٹرول اس حقیقت کے مدنظر رکھا جاتا ہے تاکہ اچھے کنٹرول کے باعث مریض اس بیماری سے ہونے والی پیچیدگیوں کے خطرات سے محفوظ رہے کیونکہ یہ پیچیدگیاں مختلف امراض کی شکل میں نہ صرف انتہائی تکلیف دہ بلکہ بعض اوقات انتہائی مہلک اور جان لیوا بھی ہوتی ہیں۔ کبھی مریض مکمل نابینا پن کا شکار ہو کر اپنا ایک پیر یا بازو ضائع کرکے معذورانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتا ہے اور کبھی حملہ قلب یا امراضِ گردہ کے باعث موت کا شکار بھی۔ اسی لیے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس مرض کے بارے میں آگہی مریض اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کیلئے انتہائی ضروری ہے تاکہ وہ تمام عوامل و عواقب سے باخبر ہوتے ہوئے اس مرض کے علاج معالجہ، غذا، پرہیز اور ورزشوں کے پروگرام کے ذریعے خون میں شکر کا کنٹرول بہتر رکھ سکیں۔
مریض کا خود نگہداشتی عمل
اپنی بیماری کے بارے میں مریض کا زیادہ سے زیادہ علم و آگہی، خود سے دوا کی خوراک، غذا میں تال میل پیدا کرنے کی صلاحیت تاکہ خون میں شکر کی مقدار بہترین سطح پر قائم رہے۔ مقررہ اوقات پر دوا یا انسولین انجکشن خود لینے کی اہلیت خون میں مقدار شکر کو خود جانچنے اور مانیٹر کرنے کی استعداد وغیرہ ذیابیطس کی تعلیمات کا وہ حصہ ہیں جس کی وجہ سے مریض ہمہ وقت بیرونی امداد و سہاروں کا محتاج نہیں رہتا۔ اس کے نہ صرف عمومی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں بلکہ نفسیاتی کیفیت کے بہترین ہونے کے باعث مریض نارمل اور خوشگوار زندگی گزارتا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں کوئی خاص کمی محسوس نہیں کرتا۔ شکر کے بہتر کنٹرول کے باعث امکانی حد تک اس مرض کی پیچیدگیوں سے بھی بچا رہتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں