حاکم عطر سنگھ نے شیشم کا ایک بڑا درخت کٹوایا اور اسے چھکڑے پر لادکر لاہور لانے کا ارادہ کیا۔ کئی آدمی لگوائے مگر ان سے وہ درخت نہ اٹھ سکا۔ اسی دوران آپ کا اُدھر سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہٹو میں لاد دیتا ہوں چنانچہ تنہا اس کو اٹھاکر چھکڑے پر لاد دیا۔
نامعلوم الاسم مجذوب:حضرت محمد رحمۃ اللہ علیہ ہاشم کشمی اپنی تالیف لطیف زبدۃ المقامات میں لکھتے ہیں کہ جن دنوں حضرت خواجہ محمد باقی باللہ نقشبندی دہلوی لاہور تشریف لائے تھے۔ ان دنوں آپ کا شغل تھا کہ آپ لاہور کے قبرستان اور ویرانوں میں پھیرا کرتے تھے ایک دفعہ آپ کو معلوم ہوا کہ ایک گورستان میں ایک مجذوب رہتا ہے چنانچہ آپ اس کے پاس پہنچے مگر وہ آپ کو دیکھتے ہی بھاگ گیا۔ آپ جب بھی جاتے وہ اسی طرح کرتا مگر ایک دفعہ اس مجذوب نے خوش ہوکر آپ کو بلایا اور حصول مراد کے لئے دعائیں دیں۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کو اس کی دعائوں سے بہت فوائد حاصل ہوئے۔
شیخ یوسف مجذوب:حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اپنی تالیف اخبار الاخیار میں لکھتے ہیں کہ آپ لاہور کے مجذوب تھے بلند قامت، موٹے تازے، باہئیت اور صاحب عظمت پابند اوقات تھے۔ سر پر صافہ باندھتے اور سرمنڈاتے تھے۔ صاحب کشف اور کشادہ باطن تھے۔ شیخ محدث فرماتے ہیں کہ جن دنوں میں لاہور میں تھا میں نے دیکھا کہ آپ لاہور کے نخاس(لنڈا بازار) میںکھڑے اونچی باتیں اور عجیب و غریب رموز و نکات بیان کررہے ہیں۔ انہوں نے میری بھی بہت سی پوشیدہ باتیں بیان کیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی بھی نہ جانتا تھا۔ دوسرے دن پھر میں ان کی طرف روانہ ہوا تاکہ اپنے سفر دہلی کے لئے ان سے نیک فال لوں مگر آپ سے وہاں ملاقات نہ ہوسکی جب میں اپنی رہائش گاہ پر واپس آیا تو آپ بھی وہاں آنکلے اور مجھ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ ہرگز سفر نہ کرنا۔ مبارک نہیں ہے ۔ حاضرین نے کہا کہ شیخ یوسفؒ کامل بارہ برس کے بعد اس طرف آئے ہیں حالانکہ اس سے پہلے وہ کبھی بھی اس طرف نہ آئے تھے۔
مستقیم شاہ مجذوب:آپ لاہور کے مضافات فیض پور میں حجام کی دکان کرتے تھے ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ کے پاس ایک صاحب جذب و فقر درویش آگیا اور پانی مانگا تو آپ نے اس کو پانی پلادیا جس کی گرم نگاہی سے آپ تین دن تک بے ہوش رہے۔ جب ہوش آیا تو تارک الدنیا ہوگئے اور باقی عمر جذب و مستی میں بسر کردی۔ صاحب کرامت بزرگ تھے ایک دفعہ فیض پور کے حاکم عطر سنگھ نے شیشم کا ایک بڑا درخت کٹوایا اور اسے چھکڑے پر لادکر لاہور لانے کا ارادہ کیا۔ کئی آدمی لگوائے مگر ان سے وہ درخت نہ اٹھ سکا۔ اسی دوران آپ کا اُدھر سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہٹو میں لاد دیتا ہوں چنانچہ تنہا اس کو اٹھاکر چھکڑے پر لاد دیا۔تاریخ وصال ۱۲۴۰ھ مطابق ۱۸۲۴ء ہے اس وقت پنجاب کا حکمران رنجیب سنگھ تھا۔ مزار فیض پور از مضافات لاہور میں ہے۔
تاجے شاہ مجذوب:آپ مجاذیب لاہور میں سے تھے اکثر اوقات شہر اور ویرانوں میں گشت کیا کرتے تھے مستی میں آپ سے کئی ایک باتیں ایسی سرزد ہوئیں جس سے آپ کی شہرت بہت زیادہ ہوگئی۔ ہزار ہا لوگ آپ کی کرامات کے معتقد تھے۔ سکھوں کی حکومت کے خاتمے کا آپ نے پہلے ہی اشارہ کردیا تھا یعنی جس دن رنجیت سنگھ مرا۔ اسی دن آپ نے کہہ دیا تھا کہ اب یہ حکومت صرف نو برس قائم رہے گی پھر فرنگی حاکم ہو جائیں گے چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ ان ہی سالوں میں بے شمار سکھ سردار قتل ہوئے جن میں راجہ دھیان سنگھ وزیراعظم، کنور نونہال سنگھ، مہاراجہ شیر سنگھ، اجیت سنگھ، سرداران سندھا نورلیہ، راجہ سوچیت سنگھ، راجہ ہیرا سنگھ، راجہ جواہر سنگھ بہت مشہور ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی مرض الموت میں آپ کو بلایا اور صحت کے لئے کہا۔ آپ نے فرمایا کہ مرنا سب کو ہے جس طرح تیرا اور میرا باپ مرگیا ہے تو بھی مرنے والا ہے۔ چندن کی لکڑی تیری چتا کے لئے لانی چاہیے یہ سن کر وہ بہت پریشان اور ناامید ہوا۔ جب تاجے شاہ قلعہ سے نکلے تو رنجیت سنگھ مرگیا۔
نظام شاہ مجذوب:آپ عہد سکھاں میں لاہور کے مجذوب تھے۔ عام طور پر شہر کے گلی کوچوں اور ویرانوں میں پھرا کرتے تھے۔ بے شمار لوگ ان کے عقیدت مند تھے جو بھی نذر نیاز آتی اُسی وقت لوگوں میں بانٹ دیا کرتے تھے۔ ان کی بہت سی کرامات مشہور ہیں۔ ایک یہ ہے کہ جس دن راجہ ہیرا سنگھ لیبر راجہ دھیان سنگھ وزیر کا قتل ہونا تھا اس دن اندرون موچی دروازہ محلہ سادھواں کی مسجد میں آئے اور امام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج عیدالاضحی کا دن ہے پرانی صفیں لپیٹ دو اور نئی بچھادو حاضرین یہ بات سن کر بہت حیران ہوئے جب پہر دن چڑھا تو اہلیان شہر نے سنا کہ راجہ ہیرا سنگھ بمعہ مہر گھسیٹا قتل ہوگیا ہیں۔ مفتی غلام سرور لاہوری آپ کی ایک کرامت اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد موراں پاپڑ منڈی میں گیا تاکہ مولوی غلام اللہؒ فاضل لاہوری سے درس لوں۔ کتاب میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے دیکھا کہ نظام شاہ علی الصبح وہاں قاعدہ کا سبق پڑھ رہے ہیں۔ آہستہ سے اٹھے اور میری پشت پر تھپڑمار کر فرمایا کہ ناپاکی کی حالت میں مسجد میںآئے ہو اور استاد کے سامنے کھڑے ہو میں نے توجہ کی اور غسل خانہ میں جاکر غسل کیا۔ نماز پڑھی اور پھر مولوی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وفات سے چند سال قبل انہوں نے اپنا مکان گورستان میانی میں بنالیا اور کاٹھ چوبی جس میں سرکاری اہلکار مجرموں کے پائوں رکھ کر قفل لگا دیتے تھے جس پر غصہ آتا اس کو پکڑ کر اس میں جکڑ دیتا اور پھر رہا کردیتا۔ اس طرح ایک جوگی کو سزا دی جس نے حاکم ضلع کے پاس شکایت کی خدا بخش کو توال کے نام پروانہ جاری ہوا کہ فقیر کو پکڑ کر حاضر عدالت کیا جائے جب آپ کے پاس گرفتاری کے لئے آیا تو ہنسے اور فرمایا کہ ہمیں کون پکڑ کر حاضر عدالت انگریز کرسکتا ہے اور اسی رات آپ وفات پاگئے۔ آپ کی اس کرامت پر ہزارہا لوگ آپ کے جنازے میں شامل ہوئے۔( جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں