اگر ہم اپنا طرززندگی بدل ڈالیں اور کسی دوسرے کے وسیع و عریض گھر کو دیکھ کر کسی کمپلیکس کا شکار ہوں توکسی ایسے شخص کے متعلق سوچیں جن کو سر چھپانے کو ایک کمرہ بھی میسر نہیں ہے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ہم ان سے بہتر ہیں۔
آج کل کے دور میں معیار زندگی کی دوڑ نے ہر انسان کو تیز دوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہر شخص اپنی زندگی سے غیرمطمئن ہے اور دوسروں کی زندگی کو دیکھ کر حسد و رشک کا شکار ہے اور دوسروں کے لائف سٹائل کو اپنے سے بہتر دیکھ کر جلن اور حسد کا شکار ہوکر نت نئی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے اور Self Pittiness کا عادی ہوجاتا ہے۔ ایسا انسان ہروقت اپنی زندگی کا موازنہ دوسروں کی زندگی سے کرتا ہے اور یہ سوچتا رہتا ہے کہ میں تو اس سے ہر طرح سے بہتر ہوں لیکن زندگی کی دوڑ میں اس سے پیچھے کیوں ہوں اور ان ہی باتوں پر جل کڑھ کر وہ نت نئی نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
لیکن اگر ہم اپنے طرززندگی کا جائزہ لیں اور نت نئی نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہونے کے بجائے یہ سوچیں کہ بے شک کچھ لوگوں کو ہم سے بہتر وسائل میسر ہیں لیکن ہم اپنی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لاکر بہتر طرز زندگی اپنا سکتے ہیں۔ ہم اگر یہ انداز فکر ترک کردیں کہ دنیا کے بدقسمت ترین شخص ہم ہی ہیں اور اس شخص سے کیوں نہ سبق حاصل کریں جو اس بات پر محرومی کا شکار تھا کہ اس کے پاس پیسے نہیں کہ وہ جوتے خرید سکے لیکن جب اس نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کے دونوں پاؤں ہی نہ تھے تو اسے اس بات کا احساس ہوا کہ دنیا میں اس سے بھی بدقسمت لوگ موجود ہیں۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے ہم اس کی قدر کرنے کے بجائے جو چیز ہمارے پاس نہیں ہے اس کے متعلق سوچتے ہیں اور ہمارا یہ طرز عمل ہم میں خود ترسی اور نت نئی اقسام کی بیماریاں پیدا کرتاہے۔
اگر ہم اپنا طرززندگی بدل ڈالیں اور کسی دوسرے کے وسیع و عریض گھر کو دیکھ کر کسی کمپلیکس کا شکار ہوں توکسی ایسے شخص کے متعلق سوچیں جن کو سر چھپانے کو ایک کمرہ بھی میسر نہیں ہے تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ہم ان سے بہتر ہیں۔
اسی طرح اگر ہم کسی جسمانی بیماری اور دکھ کا شکار ہیں تواگر ہم اس وقت ان لوگوں کا سوچیں جن کو علاج کروانے کیلئے پیسے بھی میسر نہیں ہیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ہم ان لوگوں سے ہزار ہا درجے بہتر ہیں کیونکہ ہمارے پاس پیسہ ہے‘ وسائل ہیں جن کی بدولت ہم اعلیٰ سے اعلیٰ علاج کروا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازاہے جن کا ہمیں ادراک نہیں ہے اگر ہم اپنے دل ودماغ میں ’’سوچو اورشکر کرو‘‘ کے الفاظ کو نقش کرلیں اور پھر اللہ تعالی جل شانہٗ کی دی ہوئی نعمتوں کا شمار کریں تو ہم حیران رہ جائیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس قدر گراں بہا نعمتوں سے نوازا ہے‘ یہ نعمتیں آنکھ‘ کان‘ناک‘ ٹانگیں اور جسم ہے اور یہ ہمارا پیارا سا خاندان ہے۔ اگر کوئی شخص ایک کروڑ روپیہ دے کر بھی آپ کی آنکھیں آپ سے مانگیں تو کیا آپ دے دیں گے؟ ہرگز نہیں آپ ایسا بالکل نہیں چاہیں گے اور آپ جانتے ہیں آپ کے پاس ایک ایسا خزانہ بھی ہے جو دنیا کے تمام خزانوں سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے آپ کا دماغ! اگر ہم سب اپنے دماغ سے خود غرضی‘ حسد اور لالچ جیسے الفاظ کو مٹا دیں تو ہماری زندگی کے تمام وسائل ختم ہوسکتے ہیں۔ بے غرض ہوکر بغیر لالچ کے بنی نوع انسان کے کام آنا سیکھئے۔ یہ ہمارے تمام دینی و نفسیاتی مسائل کا حل ہے۔
انسان کے اندر لچک کی حیرت انگیز اور پراسرار قوت موجود ہے۔ ڈاکٹر الفریڈ ایڈفر نے برسوں اس فطری قوت کا جائزہ لینے میں لگا دئیے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ یہ قوت انسان کے منفی رجحانات کو مثبت رجحانات میں بدل دیتی ہے۔ اگر اسے آزادی سے اور صحیح طریقے سے کام کرنے دیا جائے۔ خود ترسی اور اپنے غم اور انداز فکر کو سینے سے لگا کر بیٹھ جانا ٹھیک نہیں۔ ہم اپنے انداز فکر کو بدلنا ہوگا اور جب ہم اپنا منفی انداز فکر بدل کر دیکھیں گے اور لوگوں سے بغض‘ حسد‘نفرت کرنے کے بجائے ان سے پیار کرنا سیکھ جائیں گے تو ہماری زندگی کا ایک نیا رخ متعین ہوجائے گا۔ جو ہماری مثبت قوتوں کو بیدار کردے گا۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت بجا طور پر ہر زخم کا مرہم ہے لیکن یہ بات ذہن نشین کرلیجئے کہ کام اس سے بھی اچھا مرہم ہے جب آپ لوگوں کے دکھ‘ درد میں کام آنا سیکھتے ہیں اور ان کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھنے لگتے ہیں تو ہمارے اندر مثبت جذبات پیدا ہوجاتے ہیں اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہم ایک بہتر اوراچھی زندگی گزار رہے ہیں اور ہمارا یہ انداز فکر ہمیں بالکل ایک نیا انسان بنا دے گا۔ آزمائش شرط ہے!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں