Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

بیوی کی ایک مسکراہٹ کو ترستے خاوند کی دہائی

ماہنامہ عبقری - مارچ 2019

جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو شہنائیاں بجتی ہیں رسم و رواج کے مطابق دلہن کی آمد زرق، برق لباس میں ہوتی ہے۔ شروع شروع میں دلہن کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں کچھ عرصے تک تو دعوتیں ہوتی ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد ناچاقیاں اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں

محترم حکیم صاحب السلام علیکم!قارئین یہ واقعہ بیان کرنے سے قبل میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ میاں بیوی کا رشتہ جتنا خوبصورت، مضبوط، پائیدار ہے اتنا ہی حساس اور نازک بھی ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اس دنیا میں سب سے پہلا رشتہ جو قائم ہوا وہ میاں بیوی کا رشتہ ہی تھا اور جنت میں بھی میاں بیوی کا رشتہ ہی ہوگا۔ اسلام نے میاں بیوی کے حقوق واضع طور پر بیان کیے ہیں جس میں خاوند کے حقوق بھی ہے اور بیوی کے حقوق بھی چونکہ یہ واقعہ خاوند کے حقوق کے بارے میں ہے‘ اس لئے اس پر بات کروں گا۔
حضورﷺ نے فرمایا ’’اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ کی اجازت ہوتی تو میں بیوی کو حکم کرتا اپنے خاوند کو سجدہ کرے‘‘
محترم قارئین! اس حوالے سے بہت سی احادیث واقعات ہیں جس سے ہر بندہ واقف ہے لیکن میں حیران ہوں کہ عورت (سب خواتین نہیں مگر اکثریت) کی نظر میں، دنیا کا سب سے بہترین شخص اور مکمل اس کا باپ، دنیا کا سب سے دکھی خاوند اس کا بھائی، دنیا کا سب سے خوبصورت اس کا بیٹا، دنیا کا خوش نصیب شخص اس کی بہن کا شوہر اور دنیا کا سب سے کنجوس ، خودغرض اور بے کار قابل نفرت اس کا اپنا خاوند ہوتا ہے لیکن کیوں؟ (بعض خواتین )اس شخص کے لئے تمام نفرت، جو سارا دن خون پسینہ ایک کر کے محنت کرتا ہے صرف بیوی بچوں کے لئے ‘اپنا آرام ختم کرکے بیوی کی آسودگی، آرام اور خواہشات کے لئے، دن رات ایک کرکے تمام ضروریات زندگی اور کھانا، مہیا کرتا ہے، اس کا دیا کھا کر‘ پہن کر اس کے لئے نفرت میری سمجھ سے باہر ہے ۔میں ان بہنوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنے خاوند کی قدر کریں، ان کے گھر واپسی پر آپ کی مسکراہٹ انکی سارے دن کی تھکاوٹ ختم کردے گی، یہ واقعہ ایسی بہنوں کے لئے ہے جو خاوند سے نفرت کرتی ہیں اور ان کی حقوق سے بے پروا ہیں میں اپنے گھر میں اسی چیز کی کمی محسوس کرتا ہوں اور جانتا ہوں کہ گھر والی اگر صحیح رُخ نہ دے تو کتنی اذیت ہوتی ہے۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے دادا جی سنایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ ہم ایک عورت کا جنازہ لے کر قبرستان گئے اسے دفن کرکے واپس ہوئے! ابھی دو کلو میٹر ہی رہ گئے تھے کہ پیچھے آگ کے شعلے آسمانوں کو چھوتے ہوئے دکھائی دیئے۔ سب نے سمجھا کسی کے مکان وغیرہ کو آگ لگ گئی ہے سب واپس دوڑے اس وقت لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے درد اور فکر ہوئی تھی آج کل تو لوگ صرف تماشہ دیکھنے کے لیے ہی جمع ہوتے ہیں خیر جب سب لوگ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کسی مکان وغیرہ کو آگ نہیں لگی ہوئی تھی بلکہ اس عورت کی قبر سے آگ کے شعلے بلند ہورہے تھے جس کو وہ ابھی دفنا کر گئے تھے۔ شعلے قبر سے نکل کر آسمان کو چھو رہے تھے سب نے استغفار کیا اور قرآن مجید ذکر وغیرہ پڑھنے لگے تاکہ عذاب ختم ہو جب واپسی ہوئی تو کسی نے اس کے خاوندکو جو ایک کسان تھا سے پوچھا اس عورت کا کیا گناہ تھا جو قبر کو آگ لگ گئی اس نے ٹھنڈا سانس لیا اور بتایا کہ یہ میری نافرمان تھی ہر وقت مجھ سے لڑائی جھگڑا کرتی تھی میں کھیتوں میں سارا دن کام کرتا رہتا تھا‘ دوپہر کو یہ میرے لیے کھانا لے کر آتی تھی اور دور سے روٹی میری طرف پھینکتی جیسے کوئی کتے کو روٹی دیتا ہے اور گالیاں نکال کر چلی جاتی ساتھ بیٹھے ساتھی کہتے تمہاری بیوی تمہاری اتنی گستاخی کرتی ہے اور تم اسے کچھ نہیں کہتے؟ میں انہیں کہتا اس سے اللہ پوچھے گا میرا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہےمیں صبر کر جاتا تھا، وقت گزر گیا اور مرنے کے بعد اللہ نے سب کو دکھا دیا کہ خاوند کے ساتھ ناروا سلوک اور حقوق سے بے پروائی کا انجام یہ ہوتا ہے۔ اللہ ہم سب کو ایک دوسرے کی عزت کرنے کی توفیق دے آمین۔(گلفام، کوٹ ادو)
شادی خانہ آباد مگر پھر بربادی کی داستانیں کیوں؟
جب کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی ہے تو اس کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کی شادی کی فکر شروع ہو جاتی ہے۔ والدین اپنی بیٹیوں کو پرایا دھن سمجھ کر ان کی پرورش انتہائی نازونعم سے کرتے ہیں۔ شادی ایک خوبصورت بندھن ہے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کی شادی شان و شوکت اور بروقت کرسکیں۔ شادی محض ایک رسم نہیں، بلکہ نئی زندگی کاآغاز ہوتا ہے۔ شادی سے پہلے کی زندگی میں زیادہ تر لڑکیاں صبر نام سے واقف نہیں ہوتیں۔ اور ان میں قوت برداشت بہت کم ہوتی ہے۔ لیکن شادی کے بعد گھریلو ماحول کو خوشگواربنانے کے لیے عورت کو بہت زیادہ صبر و تحمل سے کام لینا پڑتا ہے۔ کوئی بھی لڑکا، لڑکی شادی کے بندھن میں بندھ کر جب اپنی نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں تو انہیں ان دیکھی خوشیوں، غم، مسائل اور دکھ سکھ کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ اس نئے بندھن میں عورت کو بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور ہر قسم کا سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔جب کسی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو شہنائیاں بجتی ہیں رسم و رواج کے مطابق دلہن کی آمد زرق، برق لباس میں ہوتی ہے۔ شروع شروع میں دلہن کے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں کچھ عرصے تک تو دعوتیں ہوتی ہیں لیکن تھوڑے ہی عرصے بعد ناچاقیاں اور لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ ذات پات کی فوقیت، جہیز کے طعنے، طلاق کی دھمکی اور کبھی کبھار دولہا اور اس کے خاندان کی طرف سے روپے جائیداد کی ڈیمانڈ آجاتی ہے اور یوں ہنستا بستا گھر اُجڑ جاتا ہے گویا شادی مذاق بن جاتی ہے مگر جب شادی کے بعد سسرال والوں کے طعنوں اور ظلم و ستم سے تنگ آکر بیٹی میکے واپس آجاتی ہے تو والدین اس صدمے اور بدسلوکی سے نڈھال ہو جاتے ہیں۔بربادی کی وجوہات:ایسی کونسی وجوہات ہیں جن کی بناء پر گھرانے تباہ ہو جاتے ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ شوہر کا حاکمانہ رویہ ہے۔ شوہر سمجھتا ہے کہ بیوی اس کے پائوں کی جوتی ہے اور اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شوہر کا حکم مانے حالانکہ شادی سے پہلے لڑکیوں کے والدین کو باور کرایا جاتا ہے کہ آپ کی بیٹی ہمارے گھر کی مالکن ہوگی اور ہمارے گھر میں راج کرے گی۔ مگر پھر اس کی حیثیت ایک نوکرانی کی سی ہو جاتی ہے۔ اگر شوہر یہ سوچ کر اپنی بیوی کا خیال رکھے کہ وہ دوسرے گھرانے اور ماحول سے آئی ہے۔ اور ماحول سے آئی ہے اور اپنے والدین، بہن، بھائی، دوست ارباب الغرض اپنا سب کچھ اس کے لیے چھوڑ آئی ہے اور اس کو شوہر کے گھر کے ماحول میں ڈھلنے میں کچھ وقت لگے گا تو ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔شادی سے پہلے اور شادی کے بعد بھی لڑکی کے والدین لڑکے والوں کی خوب آئو بھگت کرتے ہیں لیکن شادی کے بعد لڑکی کے رشتے داروں کی آمد پر لڑکے والوں کی طرف سے نفرت و حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ وہ نہ 
ہی آئیں۔ یوں محبت کی جگہ نفرت کے بیج بوئے جاتے ہیں۔ اگر لڑکی کے ساس سسر یہ سوچیں کہ دلہن ایک مختلف ماحول میں پیدا ہوئی ہے۔ اس کی تربیت الگ انداز میں ہوئی ہے اور اس کے والدین نے اسے نیک تمنائوں کے ساتھ رخصت کیا ہے اور اب وہ ایک اجنبی ماحول میں آگئی ہے جہاں اس کے لیے اپنے گھر جیسا ماحول آزادی و بے فکری سب ختم ہوجاتے ہیں۔ والدہ کی جگہ ساس آجاتی ہے اور بہنوں کی جگہ نندیں پہلے وہ اپنے گھر میں حکم چلاتی تھی مگر اب اسے حکم ماننا پڑتا ہے۔ ساس اگر سمجھداری سے کام لے اور دلہن کو اپنی بیٹی سمجھے اور بیٹی کی طرح پیار و محبت کرے تو کوئی مسئلہ پیدا ہی نہ ہو۔عورت کا اخلاق ماحول کو خوشگوار بننا میں مددگار: مزید برآں عورت کا اخلاق ایسی چیز ہے جس سے اگر وہ چاہے تو سخت مزاج کو نرم اور برائی کو اچھائی میں تبدیل کرسکتی ہے۔ اس لیے لڑکی کو چاہیے کہ خوشگوار گھریلو ماحول کے لیے اپنے سسرال والوں کا بھی اس طرح خیال رکھے جس طرح اپنے والدین کا رکھتی تھی اپنے گھر میںماں کی ڈانٹ، بہنوں کے ساتھ لڑائی جھگڑے کو جس طرح نظر انداز کردیتی اسی طرح سسرال میں بھی ساس، نندوں کی کڑوی باتوں کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نظر انداز کردے کیونکہ گھریلو ماحول کی خوشگواریت کا انحصار عورت کے صبر و تحمل پر ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو بڑی سے بڑی بات کو نظر انداز کردے اور گھر میں کسی قسم کی ناچاکی پیدا نہ ہونے دے اگر چاہے تو چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی ہنگامہ کھڑا کرسکتی ہے۔ تصویر کاایک پہلو یہ بھی ہے کہ لڑکی کا گھر لڑکی کی والدہ بساتی ہے اگر لڑکی اپنے سسرال والوں کی کوئی شکایت لے کر اپنی والدہ کے پاس آئے تو اس کی والدہ کا فرض ہے کہ اپنی بیٹی کو سمجھائے کہ نئے لوگ ہیں۔ نیا ماحول ہے مگر اب تمہیں اسی ماحول میں رہنا ہے۔ اس لیے ان لوگوں کو سمجھو، لڑکے کبھی تبدیل نہیں ہوتے، ہمیشہ لڑکی کو تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے ان کے ماحول میں ڈھل جائو اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرو۔ اس لئے گھر کے خوشگوار ماحول کے لیے ضروری ہے کہ دونوں اطراف سے درگزر اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا جائے اور صفت انسانی کے تحت ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے ایک دوسرے کی تلخ باتوں کو نظر انداز کردیا جائے تو قباحتوں سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ تالی ہمیشہ دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔(رابعہ قمر‘ لاہور)

Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 377 reviews.